پروین رحمان قتل کیس کا 8 برس بعد فیصلہ 4 مجرموں کو 2 2 مرتبہ عمر قید کی سزا

خصوصی عدالت نے قتل کیس کا 8 سال بعد فیصلہ سنا دیا


کورٹ رپورٹر December 17, 2021
خصوصی عدالت نے قتل کیس کا 8 سال بعد فیصلہ سنا دیا - فوٹو:فائل

ABBOTABAD: اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمان قتل کیس کا 8 برس بعد فیصلہ ہوگیا، انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر 4 مجرموں کو دو دو بار عمر قید کی سزا سنادی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی سینٹرل جیل میں قائم انسداد دہشت گردی کمپلیکس میں واقع خصوصی عدالت نے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمان قتل کا فیصلہ سنادیا۔ سماعت کے موقع پر جیل حکام کی جانب سے گرفتار 5 ملزمان محمد رحیم سواتی، ایاز علی عرف سواتی، محمد امجد حسین خان، احمد خان عرف احمد علی عرف پپو شاہ کشمیری اور محمد عمران سواتی کو پیش کیا گیا۔

استغاثہ ملزمان کے خلاف جرم ثابت کرنے میں کامیاب رہا۔ عدالت نے مجرموں پر دہشت گردی کا جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا اور فی کس 2 لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا، جرمانوں کی عدم ادائیگی کی صورت میں مجرمان کو مزید 6 ماہ قید کی سزا بھگتنا ہوگی۔

عدالت نے مجرموں پر قتل کا جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا اور فی کس ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا۔ جرمانوں کی عدم ادائیگی کی صورت میں مجرمان کو مزید 6 ماہ قید کی سزا بھگتنا ہوگی۔

اسی طرح عدالت نے چاروں مجرموں کو شواہد مٹانے کا جرم ثابت ہونے پر 7 سال قید اور فی کس 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی۔ جرمانوں کی عدم ادائیگی کی صورت میں مجرمان کو مزید 6 ماہ قید کی سزا بھگتنا ہوگی۔

عدالت نے مجرمان ایاز علی عرف سواتی، محمد امجد حسین خان، احمد خان عرف احمد علی عرف پپو شاہ کشمیری اور محمد عمران سواتی کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 202 کے تحت جرم ثابت ہونے پر 6 ماہ قید اور فی کس 25 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔

جرمانوں کی عدم ادائیگی کی صورت میں مجرمان کومزید 3 ماہ قید کی سزا بھگتنا ہوگی۔ عدالت نے کیس میں اشتہاری 2 ملزمان موسیٰ اور شہداد کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے ہیں۔

کیس کا پس منظر

استغاثہ کے مطابق 13 مارچ 2013ء کو مدعی مقدمہ ولی داد نے شکایت درج کراتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ میں گزشتہ 20 سال سے بطور ڈرائیور فرائض انجام دے رہا ہے اور اس کی ڈیوٹی ڈائریکٹر پروین رحمان کے ساتھ ہے۔

ڈرائیور کے مطابق 13 مارچ 2013 کو وہ ڈائریکٹر پروین رحمن کو دفتر سے گھر لے کر جارہا تھا کہ مین منگھوپیر روڈ پختون مارکیٹ کے قریب اسپیڈ بریکر پر جب کار کی رفتار آہستہ کی ہی تھی کہ اچانک موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم ملزمان نے فائرنگ کردی، نتیجے میں پروین رحمان کی موت واقع ہوئی۔

مدعی کی شکایت پر تھانہ پیر آباد میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ایک روز بعد پولیس تحقیقات کے سلسلے میں کالعدم تنظیم کے مقامی رہنما قاری بلال کو گرفتار کرنے پہنچی تو وہ جعلی مقابلے میں مارا گیا تھا جس کے بعد کیس کی فائل بند ہوگئی تھی۔

سپریم کورٹ نے اپریل 2015ء میں اس کیس کا از خود نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات دوبارہ کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ جس پر ایک جے آئی ٹی تشکیل دی گئی۔ ٹیم نے رحیم سواتی کو خیبرپختون خوا کے علاقے سے گرفتار کیا اور پھر اس نے تفتیش کے دوران پروین رحمان کے قتل کا اعتراف بھی کیا۔ پروین رحمان کے قتل کی تحقیقات میں سامنے آنے والے انکشافات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ انہیں اجرتی قاتلوں نے 40 لاکھ روپے کے عوض قتل کیا۔

گرفتار ملزم امجد حسین نے جے آئی ٹی کو دیئے گئے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ایک سیاسی جماعت کے عہدے دار پروین رحمان سے زمین مانگ رہے تھے اور انکار پر کالعدم تنظیم کو پیسے دے کر انہیں قتل کروا دیا گیا۔

ملزم امجد حسین عرف امجد آفریدی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اس کیس میں پہلے سے گرفتار ملزم رحیم سواتی اور عوامی نیشنل پارٹی کے علاقائی عہدیدار ایاز سواتی پروین رحمان سے علاقے میں جِم کھولنے کے لیے زمین مانگ رہے تھے۔ پروین رحمان کے انکار پر جنوری 2013ء میں رحیم سواتی کے گھر پروین رحمان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا جس میں ملزم امجد حسین، ایاز سواتی، رحیم سواتی اور احمد عرف پپو شامل تھے۔

ملزم کے مطابق قتل کے لیے رحیم سواتی نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے موسٰی اور محفوظ اللہ عرف بھالو نامی دو علاقائی عہدیداروں سے رابطہ کیا جو 40 لاکھ روپے کے عوض پروین رحمان کو قتل کرنے کیلئے تیار ہوگئے، امجد حسین اور دیگر ملزمان نے 2 ماہ تک پروین رحمان کی ریکی بھی کی جس کی تفصیلات کالعدم تنظیم تک پہنچائی جاتی رہی۔ موسیٰ اور بھالو نے 23 مارچ 2013 کو پروین رحمان کو قتل کردیا۔

ملزم امجد حسین نے دوران تفتیش جے آئی ٹی کو بتایا کہ رحیم سواتی کی جانب سے 40 لاکھ روپے نہ دینے پر کالعدم تنظیم نے رحیم سواتی کے گھر دستی بم حملہ بھی کیا تھا۔ پولیس نے 18 مارچ 2015ء کو مانسہرہ سے قتل میں ملوث مرکزی ملزم احمد خان عرف پپو کشمیری کو گرفتار کیا جبکہ منگھوپیر سے رحیم سواتی کی گرفتاری بھی عمل میں آئی تھی۔

اس کیس کے لیے 5 جے آئی ٹیز تشکیل دی گئیں، صلاح الدین ایڈووکیٹ

مدعی مقدمہ صلاح الدین پہنور نے میڈیا سے غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ عدالتی فیصلے میں 8 سال لگ گئے مگر ملزمان اپنے انجام کو پہنچے، یہ کیس 3 بار چلایا گیا تھا اور 5 جے آئی ٹیز تشکیل دی گئیں تھیں، پروین رحمان نے اپنی زندگی میں قتل کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ 5 ویں جے آئی ٹی پروین رحمان کے انٹرویو کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی تھی، 5 ویں جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی تھی، جے آئی ٹی نے پروین رحمان کے انٹرویو کی فرانزک بھی کرائی تھی۔

صلاح الدین پہنور ایڈوکیٹ نے بات چیت کے دوران اپنی سیکیورٹی خدشات کا اظہار کردیا۔ انہوں نے کہا کہ کیس کے فیصلے کے بعد مجھے سیکورٹی خدشات ہیں، آئی جی سندھ سیکیورٹی کو یقینی بنائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔