وزیراعظم کے غیر اہم اور ناکام وزرا کون ہیں

وزیراعظم خود اعتراف کر رہے ہیں کہ اُن کی حکومت کے ستون ہی ٹھیک نہیں ہیں


سالار سلیمان February 14, 2022
وزیراعظم اُن وزرا کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں؟ (فوٹو: فائل)

PESHAWAR: عین اُن لمحات میں جبکہ اپوزیشن صف آرا ہوچکی ہے، عین اُن لمحات میں جبکہ اپوزیشن اتحادی جماعتوں سے فیصلہ کن ملاقات کررہی ہے، عین اُن لمحات میں جبکہ اتحادی بھی کمبل چھوڑنا چاہ رہے ہیں اور فیصلہ ساز قوتیں نیوٹرل ہونے کے اشارے دے چکی ہیں۔ ہمارے وزیراعظم نے یہ حیران کن فیصلہ کیا کہ وہ اپنی کابینہ کے اُن وزرا میں اسناد تقسیم کریں گے جن کی وزارتوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہوگا۔

اب اس ''اچھی کارکردگی'' کی کیا تعریف ہوگی؟ یہ ہمارے وزیراعظم جانیں۔ لیکن ایک تقریب میں عمران خان نے دس وزارتوں میں اسناد تقسیم کیں اور یوں بظاہر سندیافتہ کلب بھی بنادیا۔ اس میں پہلا نمبر مراد سعید کی وزارت کا تھا جبکہ نیشنل فوڈ اینڈ سیکیورٹی کی وزارت کا نمبر آخری یعنی دسواں تھا۔

اب یہ کیسی بہترین کارکردگی ہے جو عوام کو نظر ہی نہیں آرہی؟ یہ کیسی بہترین کارکردگی ہے کہ وزرا بھی ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ رہے ہیں۔ اس کا معیار کیا تھا؟ ان کی گریڈنگ کیسے ہوئی اور اس کا طریقہ کار کیا تھا؟ اب میں یہاں نمبرز لکھ کر کسی کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا لیکن اب وزیراعظم کے بنائے گئے معیار کے مطابق ان ٹاپ 10 نے پرفارم کیا ہے تو کیا ہم سمجھیں کہ باقی کے وزرا کی پرفارمنس ناقص ہے؟ بظاہر تو ایسا ہی لگ رہا ہے کہ بغیر کسی میرٹ کے بس وزیراعظم کی ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر ان معاملات کو نمٹایا گیا ہے۔ اگر ہم ''یس سر'' کو بھی میرٹ مان لیں تو ایسے کئی وزرا رہے ہیں جنہوں نے اس میں کوئی کمی نہیں آنے دی ہے۔ لیکن یہاں سے اب کچھ انتہائی سنجیدہ سوال پیدا ہوتے ہیں۔

ٹاپ 10 میں وہ وزارتیں ہیں جنہوں نے پرفارمنس دی ہے، یا چلیے مان لیتے ہیں کہ بہترین پرفارمنس دی ہے اور باقی کی سب وزارتیں اب گیارہویں نمبر سے شروع ہوتی ہیں اور اس میں کچھ اہم ترین وزارتیں بھی شامل ہیں۔ جیسا کہ وزارت دفاع، جو انتہائی اہم وزارت ہے۔ یہ وزارت سند یافتہ کلب کا حصہ نہیں بن سکی۔ اس کا مطلب یہی ہوا وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ وزارت دفاع نے ٹھیک سے پرفارمنس نہیں دی۔ اب اگر اس کی کارکردگی سوالیہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وزارت دفاع کے ذیلی اداروں کی کارکردگی بھی سوالیہ ہی ہے۔ اسی طرح سے وزارت داخلہ جو کہ شاہ محمود قریشی کے زیر انتظام ہے، وہ بھی اس لسٹ میں جگہ بنانے میں ناکام رہی ہے۔ شاہ محمود قریشی تو وزیراعظم کی قیادت میں عالمی ثالثی کا ڈیرہ کھولے بیٹھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم کبھی ایران اور سعودیہ کو ثالثی کی پیشکش کرتے ہیں تو کبھی چین اور امریکا کے مابین ثالثی کی آفر کرواتے ہیں، لیکن یہ وزارت بھی اپنی کارکردگی سے وزیراعظم کو متاثر نہیں کر سکی۔

اسی طرح سے وزارت خزانہ بھی انتہائی اہم وزارت ہے۔ اس وزارت پر کوئی بھی منسٹر زیادہ عرصہ نہیں ٹک سکا اور وزیراعظم اس پر خصوصی توجہ بھی دے رہے ہیں لیکن یہ وزارت بھی سند یافتہ کلب میں داخلے سے محروم رہی۔ اور اس کا مطلب یہی ہے کہ وزیراعظم سمجھتے ہیں معیشت ٹھیک نہیں ہے اور یہ وزارت ٹھیک کام نہیں کر رہی ہے۔ اسی طرح سے فواد چوہدری، جن کو میں ذاتی طور پر پبلک ریلشننگ کا ماسٹر کہتا ہوں، وہ بھی اس لسٹ میں جگہ نہیں بنا سکے۔ اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ وزیراعظم اطلاعات یعنی بیانیہ بنانے کے کام سے بھی مطمئن نہیں اور وہ موجودہ بیانیے کو نہ ٹھیک سمجھتے ہیں اور نہ ہی اس سے وہ خوش ہیں۔ اب دفاع، خارجہ امور، خزانہ اور اطلاعات کی وزارتیں قومی سلامتی سے براہ راست منسلک ہیں تو اس کا کیا مطلب ہوا؟

اسی طرح سے اعجاز شاہ کی وزارت جس کا کام انسدادِ منشیات ہے، وہ بھی اس لسٹ میں شامل نہیں ہے۔ اتحادی جماعتوں کی دو اہم وزارتیں یعنی طارق چیمہ کی ہاؤسنگ اینڈ ورکس اور مونس الٰہی کی واٹر ریسورسز کی کارکردگی بھی وزیراعظم کو متاثر کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ہاؤسنگ کی وزارت نے پاکستانیوں کو پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے ہیں۔ اللہ جانے کتنے بن چکے ہیں اور کتنے بننے باقی ہیں۔

ایک اور اہم ترین وزارت جس نے وزیراعظم کی خاطر کیا کچھ نہیں کیا، وہ بھی اس سند یافتہ کلب میں شامل نہیں ہے۔ یہ فروغ نسیم کے پاس موجود وزارت قانون ہے۔ اب میں یہاں کیا لکھوں کہ فروغ نسیم کیسے کیسے قانونی باریکیاں تلاش کرتے رہے اور کیسے اتنا عرصہ قانون موم کی ناک ہی بنا رہا لیکن آج لگتا ہے کہ فروغ نسیم کی ساری محنت غارت گئی۔ اسی لیے یہ وزارت بھی سند یافتہ کلب میں شامل نہیں۔ دنیا کی معیشت میں آئی ٹی ریڑھ کی ہڈی ہے جبکہ ہمارے وزیراعظم کا خیال ہے کہ پاکستان میں آئی ٹی کا شعبہ متاثر کن کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا ہے، اسی لیے وہ اس لسٹ میں جگہ بنانے میں ناکام رہی ہے۔

اس کے علاوہ بھی ایسی کئی وزارتیں ہیں، جن پر گفتگو ہوسکتی ہے لیکن یہاں میرا خیال ہے وزیراعظم غلطی کرگئے ہیں۔ عوام اب ان حرکتوں سے متاثر ہونے والے نہیں ہیں۔ وہ بھی نتائج کی جانب دیکھ رہے ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ کس نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اور کس کے اب گھبرانے کا وقت شروع ہوا چاہتا ہے۔

اگر یہ سندیں میرٹ پر تقسیم کی گئی ہیں تو پھر انتہائی سنجیدہ سوال یہ ہے کہ وہ اہم وزارتیں جو کسی بھی حکومت کےلیے ستون کا کردار ادا کرتی ہیں، وہ اس لسٹ میں کیوں نہیں ہیں؟ اس کا کیا مطلب ہے کہ وزیراعظم اُن وزارتوں کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں؟ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ وزیراعظم خود اعتراف کر رہے ہیں کہ اُن کی حکومت کے ستون ہی ٹھیک نہیں تو باقی کی عمارت کیا ٹھیک ہوگی؟ تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ اب وزیراعظم کے گھبرانے کا وقت شروع ہوچکا ہے؟

چھوڑیے سر، کیا آپ نے مڑ مڑ کے ریوڑھیاں بانٹنی ہیں؟ نوشتہ دیوار پڑھیے اور اس انجام سے بچیے جس سے اس کرسی پر بیٹھنے والے سب ہی دوچار ہوئے ہیں۔ یہ کرسی انتہائی بے وفا ہے اور آج تک کوئی بھی شخص یہاں پر اپنی مدت پوری نہیں کرسکا۔ آپ کے گھبرانے کا وقت بھی شروع ہوچکا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔