پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ سلسلہ کہاں رکے گا

وزیراعظم عمران خان نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی سمری نظرثانی کے لیے وزارت خزانہ کو واپس بھیج دی تھی


Editorial February 17, 2022
وزیراعظم عمران خان نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی سمری نظرثانی کے لیے وزارت خزانہ کو واپس بھیج دی تھی (فوٹو: فائل)

وفاقی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا ہے۔

نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرول کی قیمت میں12.03روپے فی لٹر، ہائی اسپیڈ ڈیزل میں9.53روپے فی لٹر، لائٹ ڈیزل آئل میں 9.43روپے فی لٹر جب کہ مٹی کے تیل کی قیمت میں10.08روپے فی لٹر اضافہ کیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی سمری نظرثانی کے لیے وزارت خزانہ کو واپس بھیج دی تھی اور کہا تھا کہ پٹرول کی قیمتوں میں اتنا اضافہ نہیں کر سکتے، تاہم اس کے باوجود پٹرول 12روپے 3پیسے مہنگا کر دیا گیا،جس کے بعد پٹرول کی قیمت ملکی تاریخ میں بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو یہاں بھی بڑھیں گی، قیمتوں کو زیادہ دیر تک بڑھنے سے روکنا ہمارے لیے ممکن نہیں۔

سونے پہ سہاگہ والا محاورہ تو استعمال نہیں ہو سکتا،البتہ مرے کو مارے شاہ مدار والی بات کی جا سکتی ہے، حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھا دی ہیں جس سے مارکیٹ میکنزم کے مطابق ادویات کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں، گیس کی قیمت بڑھا دی گئی، بجلی کے ٹیرف میں اضافہ کر دیا گیا اور اب پٹرول و ڈیزل بھی مہنگے ہو گئے۔

دوسری جانب سوال کیا جاتا ہے کہ کیا کسی کی آمدنی بڑھی، ملازمت پیشہ طبقے کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا، مزدور کی کم از کم اُجرت بڑھائی گئی؟ جواب ندارد۔ ایک روپیہ بھی نہیں بڑھایا گیا۔

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے براہ راست اثرات عوام اور ملکی معیشت پر مرتب ہوتے ہیں ،اشیائے خورونوش کی قیمتیں عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوگئی ہیں۔

صارف کی قوت خرید جواب دے چکی ہے ، صرف چند دن پہلے فی یونٹ بجلی کی قیمت میں تین روپے سے زائد کا اضافہ ہوچکا ہے ، لیکن حکومت مسلسل پاکستان کو خطے کا سستا ترین ملک قرار دینے پر بضد نظر آتی ہے،یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جو عوام اور حکومت کے درمیان فاصلے پیدا کررہا ہے، کیونکہ حکومتی بیانات اور حقیقی معاشی مشکلات اور اعدادوشمار کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں کھلا تضاد نظر آتا ہے۔

عام آدمی کی زندگی میں طلوع ہونے والا ہرنیا دن مشکل سے مشکل تر اورحالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔

مہنگائی سے اس طرح کے حالات پیدا ہو رہے ہیں جس سے عام آدمی،غریبوں اور مزدوروں کے لیے زندگی گذارنا بہت مشکل ہو رہا ہے،اور اس کے نتیجے میں لوگ بھوک اور دو وقت کی روزی روٹی نہ ملنے کی وجہ سے خودکشی کر رہے ہیں،یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے،ملک اس وقت بہت سنگین حالات سے دوچار ہے۔

ایک طرف مہنگائی کا سیلاب ہے تو دوسری جانب بے روزگاری کا طوفان، ایسے میں اس ملک کاغریب آدمی کیاکرے؟ اور یہ چیزیں ملک کو کس مقام پر لے کر جائیں گی؟ کورونا وائرس کی ابتداء سے اب تک اقتدار میں بیٹھے لوگوں نے جس طرح کی بے حسی کا مظاہرہ کیا اس سے تو یہی لگتاہے کہ حکومت کو لوگوں کے دکھ درد اور مشکلات ومسائل سے کوئی سروکار نہیں، اپوزیشن پارٹیوں کو جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا یہ پارٹیاں بھی اپنی ذمے داری میں ناکام دکھائی دے رہی ہیں۔

جسکا نتیجہ یہ ہے کہ ملک مسائل کی دلدل میں پھنستا جارہا ہے لیکن اسے دلدل سے نکالنے کی ادنیٰ کوششیں بھی نہیں ہورہی ہیں، پاکستان میں ابھی سب سے سنگین مسئلہ بے روزگاری اور مہنگائی ہے۔

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا حکومت کے معاشی منیجروں اور خود حکمرانوں کو یہ خوش فہمی ہے کہ ابھی عوام میں بڑی سکت ہے،اُن کی آمدنی میں بڑی لچک ہے، اِس لیے وہ ایسی مزید کئی صعوبتیں برداشت کر لیں گے۔اِن اضافوں سے اُن پر جو بوجھ پڑے گا، اُسے بآسانی اُٹھا لیں گے، وہ لوگ جو مہینے میں 20 یا 30ہزار روپے کماتے ہیں۔

وہ کیسے گزارا کر رہے ہیں، یا اُن میں ایسی کون سی لچک ہے جو انھیں بچائے ہوئے ہے۔اب پٹرول کی قیمت بڑھی ہے تو نہ صرف غریب کو اپنی موٹر سائیکل چلانے کے لیے اضافی پیسے دینے پڑیں گے، بلکہ اس کی وجہ سے ذخیرہ اندوز،بڑے بڑے تاجر، سرمایہ دار جو قیمتیں بڑھائیں گے۔

ان کا بوجھ بھی عوام پر پڑے گا۔ شکر ہے ابھی حکومت میں کوئی ایسا وزیر نہیں،جو یہ کہے کہ پٹرویم کی مصنوعات مہنگی ہو گئی ہیں توکیا ہوا، لوگ بائیسکل پر یا پیدل آنے جانے کی عادت ڈالیں۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے پٹرول کی قیمت کا خطے کے دوسرے ممالک سے موازنہ درست نہیں۔ حکومت اس طرح کا موازنہ اگر روز مرہ استعمال کی چیزوں پر کرے تو معلوم ہو گا کہ پاکستان میں خطے کے باقی ممالک کی نسبت مہنگائی کی شرح کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔بھارت اور بنگلہ دیش میں آٹا و چینی پاکستان کی نسبت سستے ہیں حالانکہ ہم ان میں خود کفالت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

بھارت اور بنگلہ دیش کے عوام کی قوت خرید پاکستانیوں کی نسبت زیادہ ہے، اس لیے وہاں پٹرول مہنگا ہونے کے باوجود عام آدمی کی زندگی اور معاشی شعبے کو متاثر نہیں کر رہا۔ پاکستان میں مہنگے پٹرول و ڈیزل کی سب سے بڑی وجہ عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ بتایا جاتا ہے۔پاکستان کی معیشت بھاری قرضوں اور کورونا کی وجہ سے بحران کی زد میں ہے۔

ایسے میںپٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا اثرمنفی انداز میں پڑرہا ہے ،تاہم پاکستان میں اس کے ساتھ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی بھی خام تیل کی درآمد کو مہنگا بنا رہی ہے۔

سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ حکومت نے ابھی تک خام تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافے کو پوری طرح عوام تک منتقل نہیں کیا اور سیلز ٹیکس کی شرح کو کم کر کے قیمت کم رکھی ہے۔ اسی طرح پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی مد میں بھی حکومت نے زیادہ پیسے وصول نہیں کیے۔

حکومت نے رواں مالی سال میں پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی مد میں 600 ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف مقرر کیا ہوا ہے، اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ 30 روپے فی لیٹر بنتی ہے تاہم فی الحال یہ 5.62 روپے کی سطح پر موجود ہے۔ حکومت کی جانب سے سیلز ٹیکس کی شرح کو کم کر کے قیمت کم رکھنا صحیح ہے تاہم درآمدی مرحلے پر حکومت کسٹم ڈیوٹی اور ایڈوانس ٹیکس کی مد میںخاصا ٹیکس اکٹھا کر لیتی ہے۔

پاکستان کچھ سال قبل 11 سے 12 ارب ڈالر کی پٹرولیم مصنوعات درآمد کر رہا تھا اب ان مصنوعات کا درآمدی بل 19سے 20 ارب ڈالر ہو چکا ہے جس کا مطلب ہے کہ درآمد کے مرحلے پر حکومت پٹرولیم مصنوعات پر زیادہ ٹیکس حاصل کر رہی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت پی ڈی ایل کی مد میں زیادہ ٹیکس نہیں وصول کر رہی تو اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ شرائط کے تحت اسے یہ ٹیکس وصول کرنا ہے۔ قیمتوں میں اضافہ کیسے کیا جاتا ہے اس کے بارے میں اوگرا کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیٹ آئل، اوگرا حکام، وزارت خزانہ اور پیٹرولیم کے حکام ہر مہینے عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت، پاکستان کو ملنے والے تیل کی قیمت، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں رد و بدل، ملک میں منگوائے گئے تیل کی مقدار، کھپت اور لاگت کا جائزہ لے کر ایک سمری تیار کرتے ہیں۔

اس سمری کو پٹرولیم اینڈ فنانس ڈویژن کو بھیجا جاتا ہے۔ جس کے بعد وزارت خزانہ ان سفارشات کی روشنی میں ملکی خزانے میں خسارے یا اخراجات کا تعین، ٹیکسوں کی مد میں مختص رقم کا تعین کر کے اس سمری کو فی لیٹر قیمت طے کر کے وزیر اعظم کو بھیجتی ہے۔وزیر اعظم فی لیٹر پٹرول کی قیمت کا حتمی فیصلہ کرنے کے بعد وزارت خزانہ کو نئی قیمتوں کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم دیتے ہیں۔

اوگرا کے مطابق ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی ماہانہ کھپت سات لاکھ سے ساڑھے سات لاکھ میٹرک ٹن ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی خریداری کے لیے روزانہ کی بنیاد پر قیمت طے نہیں ہوتی بلکہ ایک ہفتہ کے دوران رہنے والی قیمت کی اوسط کے مطابق خریداری ہوتی ہے جب کہ خام تیل کی خریداری ایک مہینے کی قیمت کی اوسط کے مطابق کی جاتی ہے۔ عالمی منڈی سے تیار تیل خریدا جاتا ہے خام تیل نہیں۔ البتہ عالمی منڈی میں ریفرنس پرائس خام تیل کی قیمت کو رکھا جاتا ہے۔

معاشی ماہرین ملکی برآمدات میں اضافے کو خوش آیند قرار دیتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ تجارتی خسارے میں اضافہ اصل میں سب سے بڑا مسئلہ ہے جو حکومتی پالیسیوں اور مرکزی بینک کی جانب سے لیے جانے والے اقدامات کے باوجود مسلسل بڑھ رہا ہے اور پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔

پاکستانی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ درآمدات میں زیادہ اضافہ پیٹرولیم، آٹو موبائل اور کھانے پینے کی اشیا کی زیادہ درآمد کی وجہ سے ہوا ہے، خصوصاً پیٹرولیم مصنوعات کی عالمی سطح پر زیادہ قیمتوں نے ملکی درآمدات میں بے پناہ اضافہ کیا ہے،اگرچہ برآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے تاہم درآمدات میں ہونے والا اضافہ بہت زیادہ ہے جو ملک کے بیرونی تجارت کے شعبے کے لیے خطرے کی علامت ہے۔

ہم ان سطورکے ذریعے حکومت کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ تیل کی قیمتیں عام آدمی کو متاثر کرتی ہیں،ہر چیز کی پیداواری لاگت بڑھتی ہے۔اس لیے حکومت اس معاملے پر ایسی حکمت عملی اختیار کرے ،جو عوام کی زندگی کو کم سے کم متاثر کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔