ایف بی آر کی ادویہ سازکمپنیوں کے قرض کاسود ادا کرنیکی پیشکش

یہ وہ قرض ہے جو ریفنڈز میں تاخیر کی وجہ سے معاملات چلانے کیلیے کمپنیوں کو لینا پڑا ہو


Shahbaz Rana March 20, 2022
چیئرمین ایف بی آر نے تجویز دی تھی جو قابل عمل نہیں، ایف بی آر پر2ارب واجب الادا،قاضی منصور۔(فوٹو: فائل)

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ایک منفرد اقدام کرتے ہوئے فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو اس قرض کی لاگت(سود) لینے کی پیش کش کی ہے جو انھیں ٹیکس مشینری کی جانب سے ان کے جینوئن ریفنڈز کی کلیئرنس میں تاخیر کی وجہ سے لینا پڑا ہو۔

ایف بی آر کا یہ فیصلہ اس اقرار کے مترادف ہے کہ منی بجٹ میں خام مال پر 17فیصد سیلز ٹیکس کے نفاذ اور ان کے ریفنڈز کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے ادویہ ساز کمپنیوں کے کاروبار کرنے کی لاگت بڑھ گئی ہے۔

ایف بی آر پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے درمیان خط و کتابت کے مطابق یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایف بی آر اور ایسوسی ایشن جی ایس ٹی ریجیم میں تبدیلیوں کے باعث کاروبار کرنے کی لاگت میں ہونے والے اضافے کے تعین کے لیے مشترکہ طور پر ایک مکینزم وضع کریں گے۔

پی پی ایم اے کے چیئرمین قاضی منصور دلاور کے مطابق کمپنیاں اپنے روزمرہ معاملات چلانے کے لیے جو قرضہ لیں گی اس پر سود ادا کرنے کا آئیڈیا چیئرمین ایف بی آر نے پیش کیا تھا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ تجویز قابل عمل نہیں تھی۔ بجٹ میں حکومت نے ایکٹیو فارماسیوٹیکل انگریڈیئنٹ ( API ) پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا تھا تاہم یہ ٹیکس 72گھنٹوں میں ریفنڈ کرنے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن ایف بی آر کو اس قرض پر سود ادا کرنے کی قانوناً اجازت نہیں ہے جو کمپنیاں ریفنڈز کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے اپنے روزمرہ امور چلانے کے لیے حاصل کرتی ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایف بی آر نے جو اکٹھا کرنے کا دعویٰ کیا اس میں ٹیکس دہندگان کی رقم بھی شامل تھی جو زیادہ ٹیکس کلیکشن دکھانے کے لیے استعمال کی گئی۔ ایف بی آر نے اب ایک بار پھر ریفنڈز کی ادائیگیوں میں تاخیر شروع کردی ہے۔

وسطی اور جنوبی ایشیا کے لیے امریکا کے تجارتی نمائندے کرسٹوفر ولسن نے دو ہفتے قبل کہا تھا کہ ایف بی آر کی جانب سے ریفنڈز کی عدم ادائیگی کی امریکی کمپنیوں نے شکایت کی ہے۔

قاضی دلاور کا کہنا تھا کہ ریفنڈز کی مد میں ایف بی آر پر فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے 16جنوری تا 15فروری کی مدت کے 2 ارب روپے واجب الادا ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں