آئینی ترمیم نہیں آئین کو خرابیوں سے پاک کیجئے

آئینِ پاکستان کو تین دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن اسے دورِ جدید کے مطابق ڈھالنے کےلیے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا گیا


دستاویز وقت کے ساتھ ساتھ ترمیم و تحذیف کی متقاضی رہتی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

لاہور: اضطراری حالت میں تو مردار بھی جائز ہوجاتا ہے۔ جب آئین اتنا کم زور ہوجائے کہ نہ وہ ضمیر فروشی کے دھندے کو لگام دے سکے، نہ سیاسی و ذاتی مفادات کے آگے بند باندھ سکے اور نہ کسی بیرونی دھمکی اور سازش کا قلع قمع کرسکے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قومی سلامتی اور ملکی مفادات کے تحفظ کی خاطر ایسے کم زور اور سقم زدہ آئین سے تجاوز کرنا بھی آئین شکنی کے زمرے میں آئے گا؟

تھوڑی دیر کےلیے فرض کرلیتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی شق آئین سے حذف کردی گئی ہے۔ اب ذرا غور کیجیے! کیا اب بھی حزب مخالف سیاسی جماعتوں کا خیال، کسی منتخب حکومت کو اس کے آخری سال میں گرانے کی طرف جائے گا؟ کیا اب بھی کوئی بیرونی طاقت کسی آئینی سقم کا فائدہ اٹھا سکے گی؟ کیا اب بھی کوئی ممبر اپنے ووٹروں کو دھوکا دے کر اپنی سیاسی جماعت سے غداری کا مرتکب ہوسکے گا؟ کیا اب بھی سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی مفادات کی خاطر، عوامی ٹیکسوں سے اکٹھے کیے گئے پیسوں یا کسی اور ذرائع سے حاصل کی گئی رقوم سے قوم اسمبلی کے ممبروں کا ضمیر خرید سکیں گی؟

تو گویا اتنی ساری برائیوں کا گڑھ اور منبع صرف ایک ہی چیز ہے اور وہ ہے آئین کے اندر تحریکِ عدم اعتماد کی شق۔ اس کے بعد اب ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی منبعِ جرائم و گناہ اور فتنہ پرور آئینی شق کا تحفظ کرنا کیا نیکی کے زمرے میں آتا ہے یا برائی کا ساتھ دینے کے مترادف ہے؟

جب کوئی شخص کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوتا ہے تو گویا وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ اب اُسے اِس سیاسی جماعت کے نظریے اور نصب العین پر مکمل یقین ہے۔ لہٰذا اب وہ اپنی سیاسی جدوجہد اِس سیاسی جماعت کے رہنما کے بتائے ہوئے طریقے اور اصولوں کے مطابق جاری رکھے گا اور کسی بھی مشکل وقت میں ساتھ نہیں چھوڑے گا۔ اس کے بعد اگر یہ سیاسی جماعت اُسے انتخابات لڑنے کےلیے ٹکٹ دے، نتیجتاً وہ انتخابات جیت جائے تو اب اخلاقی طور پر تو اسے اگلے انتخابات تک ہرگز اپنی سیاسی جماعت کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے آئین میں اس کےلیے کوئی ایسی شق ہی موجود نہیں ہے۔ ثابت ہوگیا کہ آئین میں نہایت گہرا سقم موجود ہے۔ یہی وہ آئینی خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام جنم لیتا رہا ہے۔

یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آئین دراصل انسانوں ہی کا بنایا ہوا ایک دستور ہوتا ہے۔ ایسی دستاویز جو ملک کا نظم و نسق چلانے کےلیے معاون و مددگار ہوتی ہے۔ یہ کوئی آسمانی صحیفہ نہیں کہ اسے مقدس سمجھا جائے یا اس میں تحریف کو گناہ قرار دیا جائے اور اس کی حفاظت کےلیے آئین بچاؤ مہم شروع کردی جائے۔ چونکہ انسانی عقل ایک محدود دورانیے تک کا احاطہ کرنے کے قابل ہوتی ہے اور وہ آنے والے زمانوں اور ان کے مسائل کو نہیں سمجھ سکتی، اس لیے نظم و نسق سے متعلق انسانوں کی بنائی ہوئی کوئی بھی دستاویز ایک مخصوص دور تک ہی کارآمد شے باقی رہتی ہے۔ لہٰذا ایسی دستاویز وقت کے ساتھ ساتھ ترمیم و تحذیف کی متقاضی رہتی ہیں۔

آئینِ پاکستان کو تین دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن اسے دورِ جدید کے مطابق ڈھالنے کےلیے آج تک کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ جب کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں نت نئی ایجادات کے سبب قیامت خیز تبدیلیاں آچکی ہیں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں اس سنجیدہ مسئلے کو بھی سیاسی مقاصد کےلیے استعمال کرنا شروع کر دیتی ہیں۔

آئین پاکستان کے تخفظ کےلیے ایک آئینی بورڈ کی باقاعدہ تشکیل ہونی چاہیے جو مختلف ماہرین پر مشتمل ہو۔ اس کا کام نت نئی ایجادات کی وجہ سے دنیا میں آنے والی تبدیلیوں اور خاص طور پر پاکستان میں پیدا ہونے والی انتظامی تبدیلیوں سے آئین کو ہم آہنگ کرنے کےلیے، ٹھوس تجاویز تیار کرکے وزیر قانون کو پیش کرنا ہو۔

حالاتِ حاضرہ کے سیاسی تناظر میں آئین کے سقم کو اور بھی زیادہ شدت سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ زندہ قومیں تاریخ سے سبق سیکھتی ہیں۔ ہمیں بھی اب سبق سیکھ لینا چاہیے۔ آئین کا وہ حصہ جو مفاد پرست اور عدم نظریے کے حامل پالیمانی ممبران کے ضمیروں کی خرید و فروخت کا باعث بن رہا ہو بلکہ جس سے کوئی بھی طاقتور ملک پاکستان کے بے ضمیر ممبران کو خرید کر منتخب حکومت کو دھمکانے کی جرأت کرسکتا ہو، قومی سلامتی اور ملکی مفاد میں آئین کے اس حصے کو حذف کردینا ہی بہتر ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔