معاشی بحران کا صائب حل نکالیں

حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر ایسے فیصلوں پر نظرثانی کرنا ہوگی جو ہماری معیشت برداشت نہیں کرسکتی


Editorial May 18, 2022
حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر ایسے فیصلوں پر نظرثانی کرنا ہوگی جو ہماری معیشت برداشت نہیں کرسکتی (فوٹو : فائل)

PESHAWAR: وزیراعظم شہبازشریف ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے اتحادی جماعتوں کے سربراہوں سے ون آن ون ملاقاتیں کررہے ہیں، دوسری جانب ملک میں جاری غیر یقینی صورتحال کے نتیجے میں اسٹاک مارکیٹ میں مندی سے ایک کھرب تیئس ارب ڈوب گئے جب کہ ڈالر 196.50روپے کا ہوگیا اورسونے کے نرخ مزید بڑھ گئے ۔

ذرایع نے بتایا کہ ایف بی آر نے نیشنل ٹیرف پالیسی بورڈ کے حالیہ ہونے والے اجلاس میں زیر غور تجاویز کی روشنی میں آیندہ مالی سال 2022-23 کے وفاقی بجٹ کا مسودہ تیار کرنا شروع کردیا ہے اور مختلف اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے موصول ہونے والی بجٹ تجاویز میں سے قابل عمل تجاویز کو بجٹ کا حصہ بنانا بھی شروع کردیا ہے۔

موجودہ معاشی صورتحال کے نتیجے میں کیا ملک عنقریب شدید معاشی مشکلات کا شکار ہونے جارہا ہے ؟ کیا موجودہ حکومت اس مسئلے کا کوئی صائب حل تلاش کرنے میں کامیاب ہوپائے گی۔ یہ ملین ڈالر سوال ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ سابقہ اپوزیشن اور موجودہ حزبِ اقتدار کے لیے معیشت پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوئی ہے ، پاکستان میں جب بھی انتقالِ اقتدار ہوتا ہے تو معیشت کو کم و بیش اسی قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں حکومت کی تبدیلی نے جہاں بڑے پیمانے پر سیاسی، آئینی اور قانونی بحث کو جنم دیا،وہیں معاشی بحران بھی گہرا ہوگیا ہے ۔ موجودہ حکومت سابق حکومت پر الزام عائد کررہی ہے کہ اس نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہ بڑھا کر قومی خزانے پر اضافی بوجھ ڈال کر ملکی معیشت کو سنگین خطرات سے دوچارکردیا ہے ۔آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ان مراعات کے اضافی مالی بوجھ کے لیے حکومت ٹیکس وصولی کے ہدف کو بڑھائے یا حکومتی اخراجات میں کمی کرے نہیں تو ترقیاتی منصوبوں میں کٹوتی کی جائے،جی ڈی پی گروتھ میں کمی کے مدنظر اضافی ریونیو حاصل کرنا حکومت کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔

آیندہ مالی سال کے دوران پاکستان کو 20 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنا ہوگی، جس میں سے سعودی عرب اور چینی قرض کے7ارب ڈالر بھی شامل ہیں لیکن توقع ہے کہ اس قرض کی تجدید ہوجائے گی،تاہم پاکستان کو اپنے قرضوں کی ادائیگی کے لیے عالمی مالیاتی مارکیٹ سے بڑے پیمانے پر قرض حاصل کرنا ہوگا۔

بالآخر ان غلط فیصلوں کو اب آئی ایم ایف کے کہنے پر واپس لینا پڑے گا۔پٹرول دو سو روپے لیٹر کرنے کے جو نتائج ملکی معیشت اور عام آدمی پر مرتب ہوںگے ، اس کا سوچ کر ہی نئی نویلی حکومت کو ہول اٹھ رہے ہیں ،کیونکہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ادائیگیوں کے توازن کا ہے۔

گزشتہ چار انتقالِ اقتدار سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب بھی نئی حکومت آتی ہے تو اسے زرِمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم سطح پر ملتے ہیں جس کی وجہ سے ہر حکومت کو آئی ایم ایف پروگرام میں جانا پڑتا ہے۔ اس مرتبہ صورتحال اس لیے مختلف ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس انتخابات تک ڈیڑھ سال کا عرصہ باقی رہ گیا ہے۔ نئی حکومت کو سابقہ حکومت کے آئی ایم ایف سے طے کردہ پروگرام کو بحال اور اس کو مکمل کرنا ہوگا جو لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہوگا۔

پاکستان میں ہونے والی سیاسی ہلچل کے دوران ملک کے بیرونی ادائیگیوں کے رسک میں اضافہ ہوگیا ہے،پاکستان کو قلیل مدت میں بیرونی مالیاتی خطرات کا سامنا ہے اور اس خطرے میں عالمی سطح پر اجناس کی قیمتوں میں اضافہ صورتحال کو مزید پیچیدہ اور مشکل بنا رہا ہے۔ نئی حکومت کے لیے اہم یہ ہے کہ وہ کس طرح موجودہ اور آیندہ مالی سال کے دوران واجب الادا قرضوں کو ری فنانس کرسکے اور نئے قرض بھی حاصل کرسکے۔

موجودہ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کو بحال کرے تاکہ سرمائے کی منڈی تک رسائی مل سکے۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ جاری کھاتے کا خسارہ(کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ) ابھی تک متوقع طور پر مالی سال 2022 میں جی ڈی پی کا لگ بھگ 4 فیصد رہنے کا امکان ہے۔موجودہ حکومت کے لیے آئی ایم ایف کے باقی رہ جانے والے جائزے مکمل کرنا ایک بڑا ہدف ہوگا۔

نئی حکومت کے اہم افراد نے اس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ کام جاری رکھیں گے مگر ریونیو میں اضافے اور اصلاحات کے حوالے سے مذاکرات طویل اور صبر آزما ثابت ہوں گے۔ مارچ میں ایندھن پر دی جانے والی سبسڈی نے پہلے ہی پیچیدگیاں پیدا کردی ہیں۔نئی حکومت کے لیے بجلی کے شعبے میں اصلاحات سب سے بڑ اچیلنج ہے، کیونکہ مہنگی بجلی کی وجہ سے عوام پہلے ہی پریشان ہے اور عالمی سطح پر ایندھن مہنگا ہونے کی وجہ سے ہر مہینے بلوں میں اضافی ادائیگی کرنا پڑ رہی ہے۔

بجلی کے شعبے میں موجود گردشی قرضہ حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ قرض تقریباً 2500 ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے، یعنی گردشی قرضہ ملکی دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہوچکا ہے۔پاکستان میں بجلی کی قیمت گزشتہ دورحکومت میں تیزی سے بڑھائی گئی مگر بجلی کے شعبے میں اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو بلوں کی ادائیگی کے باوجود بجلی کی فراہمی میں تعطل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے لیے توانائی کے شعبے میں سبسڈی بڑا چیلنج ہے۔ سابق وزیرِاعظم نے بجلی کے بلوں میں 5 روپے فی یونٹ کی کمی کی اور اس کمی کو بلوں پر وزیرِاعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے عوام کے لیے تحفے کے طور پر تحریر کیا گیا۔ اس سے عوام کو ریلیف تو حاصل ہوا مگر اب یہ ریلیف نئی حکومت کے لیے گلے میں پھنسی ایک ہڈی بن گیا ہے اور اس کو واپس کرنا نئی حکومت کے لیے ایک بڑا سیاسی چیلنج ہوگا۔ ایندھن کی قلت کی وجہ سے 7 پاور پلانٹس بند ہیں۔ ان پاور پلانٹس کی مجموعی پیداواری صلاحیت تقریباً 6 ہزار میگا واٹ ہے۔

پاور پلانٹس کو بروقت ایندھن کی عدم فراہمی یعنی کوئلے اور آر ایل این جی کی عدم خریداری کی وجہ سے سستی بجلی بنانے والے پلانٹس بند پڑے ہیں۔ اس کے بجائے حکومت مہنگے ترین ایندھن کے ذرایع سے بجلی پیدا کررہی تھی۔بجلی کے علاوہ عمران خان نے پاکستان پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ کے شروع ہوتے ہی پٹرولیم مصنوعات کی فی لیٹر قیمت میں 10 روپے کی کمی کی تھی۔ پاکستان میں تو ایندھن کی قیمت کم کردی گئی مگر بین الاقوامی مارکیٹ میں ایندھن مہنگا ہوتا رہا، اس کی وجہ سے نئی اتحادی حکومت مسائل میں گھری ہوئی ہے۔

اوگرا نے حکومت کو 2 سمریاں ارسال کی تھیں جس میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمت 51روپے سے زائد اور دوسری سمری میں 119 روپے فی لیٹر تک اضافے کی سفارش کی گئی تھی۔ اس اضافے کا فیصلہ حکومت کے لیے کسی سیاسی خودکشی سے کم نہیں ہے، اگر حکومت اضافہ نہیں کرتی تو اس سبسڈی کو ادا کرنے کی صلاحیت حکومت کے پاس نہیں ہے۔

دوسری صورت میں حکومت کو مالیاتی خودکشی کا سامنا ہوتا تاہم حکومت نے فی الحال قیمتوں کو برقرار رکھنے کا ہی فیصلہ کیا ہے۔معاشی ماہرین کے مطابق اس طرح وفاقی بجٹ خسارے کا ہدف 3500 ارب سے بڑھ کر 4500 ارب تک جاسکتا ہے۔

پاکستان کے بیرونی اثاثے گزشتہ دو مہینوں میں انتہائی حد تک گر گئے ہیں تاہم شہباز شریف کی حکومت حالات پر قابوپانے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ سے (آئی ایم ایف) سے معاشی پیکیج اور چین اور سعودی عرب سے قلیل مدتی قرضہ لینے کی کوشش میں ہے۔ان اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری معیشت بے پناہ دباؤ کا شکار ہے جس کے لیے حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر ایسے فیصلوں پر نظرثانی کرنا ہوگی جو ہماری معیشت برداشت نہیں کرسکتی، ورنہ ہم سخت معاشی بحران کا شکار ہوسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔