عوام تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

دیہاڑی دار مزدور اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ سب سے زیادہ متاتر ہوئے ہیں


Editorial June 04, 2022
دیہاڑی دار مزدور اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ سب سے زیادہ متاتر ہوئے ہیں۔ فوٹو: فائل

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں30، 30روپے مزید بڑھانے کا اعلان کر دیا۔ حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک ہفتے کے دوران دوسرا بڑا اضافہ ہے۔ اس سے قبل، 26 مئی کو بھی پٹرول کی قیمت میں30روپے کا اضافہ کیا گیا تھا۔

اس وقت پاکستان میں پٹرول 209 روپے86 پیسے فی لٹر کے حساب سے فروخت کیا جا رہا ہے۔ عوام کو ایک ہی دن میں دوسرا جھٹکا اس وقت لگا جب پہلے نیپرا کی جانب سے جولائی کے مہینے سے بجلی کے نرخوں میں7.91روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری دی گئی۔ صرف ایک ہفتے کے دوران پٹرول کی قیمت میں ساٹھ روپے فی لٹر اضافے کے اقدام سے ہر چیز مہنگی ہو جائے گی اور عوام کی آمدن میں کمی آئے گی۔ حکومتی اقدام سے عوام پر مزید دباؤ پڑے گا ۔ سچ تو یہ ہے کہ عوام قیمتوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہے ہیں ۔

حکومت نے ایک '' سخت فیصلہ '' لیا ہے لیکن اس کے پاس ملک کی معیشت کو دوبارہ اٹھانے کے لیے کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں تھا۔ معاشی ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کے تعطل کی وجہ سے پاکستان اس صورتحال کے نزدیک ہے جہاں وہ دیوالیہ ہوسکتا ہے۔

لہٰذا پٹرول کی قیمت میں اضافہ حکومت کا درست سمت میں ایک قدم ہے۔ یہ صرف عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے 90کروڑ ڈالر ملنے کا معاملہ نہیں، ایک مرتبہ جب آئی ایم ایف یہ منظور کرے تو دیگر مالیاتی ادارے بھی ہمیں قرضہ فراہم کریں گے۔

لہٰذا آئی ایم ایف کا پروگرام بحال ہونے کے لیے پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کا ختم ہونا ضروری تھا۔ پاکستان میں سیاسی وجوہات کی بنا پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں سابقہ پی ٹی آئی حکومت فکسڈ کرگئی تھی، جب کہ بین الاقوامی منڈیوں میں یہ قیمتیں تاریخی بلندی پر ہیں۔ پاکستانی معیشت ایک ''کاسینو معیشت'' ہے، جہاں کچھ لوگ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو خاطر میں لائے بغیر بڑی گاڑیاں رکھتے ہیں جب کہ اکثریت قیمتوں میں اضافے سے متاثر ہوتی ہے۔

پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کے ختم ہونے کے بعد جاری کھاتے کا خسارہ کم ہونے سے یہ استحکام کی جانب جائے گا۔ پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈیز ملک کے مفاد میں نہیں۔ یہ سبسڈی سپلائی چین اور مجموعی طور پر دیگر سبسڈی کو بھی خطرے میں ڈالتی ہے اور بڑے مالی خسارے کا سبب بھی بنتی ہے جو شرح سود میں اضافے کی وجہ بنتی ہے۔

سبسڈی کی رقم ادھار لینی پڑتی ہے اور اسے پھر سود کے ساتھ واپس کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات 75 فیصد درآمدات کے ذریعے پوری کرتا ہے اس لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر سبسڈی دینا ملک کے مفاد میں نہیں تھا۔

سبسڈی واپس لینا پاکستان کے لیے انتہائی ضروری تھا کیونکہ یہ پاکستان کے مالیاتی نظام کو نقصان پہنچا رہی تھی۔ آئی ایم ایف نے اسلام آباد کو پیغام دیا تھا کہ اگر حکومت پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کو ختم کرنے میں ناکام رہی تو وہ پاکستان کے لیے اپنے پروگرام کو دوبارہ بحال نہیں کرے گا۔ حتیٰ کہ ابھی حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے رکھی گئی شرائط کو جزوی طور پر قبول کیا۔

لہٰذا یہ حکومت کے لیے آئی ایم ایف کو پاکستان کے لیے اپنا پروگرام شروع کروانے کے لیے قائل کرنے کا ایک ٹاسک تھا ، جس کے بغیر پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ بڑھتا جاتا، کیونکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہورہے ہیں، یہی وہ وجہ ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے پر دباؤ بڑھ رہا تھا۔

حکومت اور متعدد معاشی ماہرین کی جانب سے اس فیصلے کو ناگزیر قرار دینے کا موقف تو ہم نے ان سطور کے ذریعے پیش کردیا ہے، لیکن عوام کی جانب سے موجودہ حکومت کو بھی خاصی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، بالخصوص وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے اس بیان پر، جو انھوں نے پریس کانفرنس میں دیا کہ ''عمران خان کی جانب سے دی گئی غیر ذمے دارانہ سبسڈی کے باعث یہ انتہائی قدم اٹھانا پڑا ہے۔

اگر ہم 10فیصد اخراجات کم کردیں تو چار ارب روپے کی بچت ہو گی، یہاں صرف ایک دن میں چار ارب روپے کی سبسڈی دی جا رہی تھی۔'' جوابا عوام نے مطالبہ کیا ہے کہ پٹرول کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے تو لازمی ہے کہ سرکاری افسران ، وزراء ، ایم این اے ، ایم پی اے کے پٹرول الاؤنسز ختم کر دیے جائیں ۔

اگر ملک میں پندرہ ہزار روپے ماہانہ کمانے والا مزدور اپنی جیب سے پٹرول ڈلوا سکتا ہے تو لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے اپنی جیب سے پٹرول کیوں نہیں ڈلوا سکتے۔ حکومت لاکھوں روپے تنخواہ کے ساتھ فری پٹرول دینا بند کرے ، ملک مقروض عوام کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ طبقہ اشرافیہ کی عیاشیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔

ایک ہفتے میں ساٹھ روپے فی لیٹر پٹرول کی قیمت میں اضافے کے باوجود وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ''اب بھی ہم پٹرول پر آٹھ روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں اور ڈیزل پر یہ سبسڈی 23 روپے ہے۔ '' انھوں نے عندیہ دیا کہ اس حوالے سے 10 جون کو دیے جانے والے بجٹ میں'' بہت سے معاملات سمٹ جائیں گے'' حکومت نے غریب اور مڈل کلاس کی کمر توڑ کر رکھی دی تھی۔

تاہم تجزیہ کار اس اضافہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حکومت توانائی بچانے سے متعلق اقدامات کیوں نہیںکر رہی ہے، جن میں کام کرنے کے دنوں میں کمی، مارکیٹوں کو غروبِ آفتاب پر بند کرنے کی ہدایت، حکومتی ملازمین سے پٹرول مفت کے بجائے خود خریدنے کا مطالبہ شامل ہے۔ حکومت اپنے خرچے کم کرے اور عوام کو یہ دکھائے کہ انھیں بھی اس مشکل وقت میں ان کا احساس ہے بلکہ ایسی اصلاحات بھی کی جائیں جن کے ذریعے بوجھ صرف غریب اور متوسط طبقے پر ہی نہیں بلکہ امیروں پر بھی پڑے۔

سوشل میڈیا پر نظر دوڑائی جائے تو ایک طرف لوگ اپنے اپنے شہروں میں پٹرول پمپس پر لگی لمبی قطاروں کی وڈیوز اور تصاویر شیئر کر رہے ہیں تو دوسری جانب مہنگائی کے ایک متوقع طوفان میں ضرورت مند افراد کا خیال رکھنے اور ان کے بارے میں سوچنے کی بھی تلقین کر رہے ہیں۔

مہنگائی اور بیروزگاری نے عوام کا بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے، ایک ہفتے میں دو بار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے نئی نویلی حکومت نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔ پہلے پونے چار برس میں پی ٹی آئی حکومت نے جھوٹے دعوؤں ، وعدوں اور مہنگائی کے علاوہ عوام کو کچھ بھی ڈلیور نہ کرکے اپنے وقت گزارا، لیکن مقام افسوس ہے کہ موجودہ حکومت بھی اسی روش پر چل نکلی ہے۔

پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافے سے مہنگائی کا ایک نیا طوفان برپا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے دیہاڑی دار مزدور اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ سب سے زیادہ متاتر ہوئے ہیں، لیکن حکمران آج بھی ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ ''مہنگائی عارضی ہے، پٹرول خطے میں سب سے سستا ہے'' عوام پر چاروں جانب سے مہنگائی کی مار پڑ رہی ہے، لیکن حکمرانوں کو کوئی پرواہ نہیں ہے، پٹرول اور ڈیزل سے ہوشربا اضافے سے گڈز ٹرانسپورٹرز بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں ۔ موجودہ اضافے نے گڈز ٹرانسپورٹرز کا دیوالیہ نکال کر رکھا دیا ہے گھروں کے چولہے ، ٹھنڈے ہوچکے ہیں کوئی پرسان حال نہیں ۔

غریب کی سستی ترین سواری پاکستان میں موٹرسائیکل ہے لیکن حالیہ دنوں میں ساٹھ روپے اضافے کے بعد بھی لاکھوں موٹر سائیکل سوار بھی اس قابل نہیں رہے ، کہ اپنی موٹرسائیکل میں پٹرول ڈلوا سکیں ۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی بڑھ گئے ہیں ، روزانہ کی بنیاد پر بسوں میں کنڈیکٹر اور مسافروں کے درمیان بحث و مباحثہ اور بعض صورتوں میں لڑائی جھگڑے کی صورتحال پیدا ہوچکی ہے ۔

عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے ہیں، عوام پر جو پٹرول بم گرایا گیا ہے، اس کے نتیجے میں کم ہی امکان ہے کہ وہ زندہ بچ پائیں گے۔ حکومت عوام کے زخموں پر پھاہا رکھے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ واپس لے، ورنہ عوام تو بقول خواجہ میر درد

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے

ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

کی عملی تصویر بن چکے ہیں۔افراط زر، مہنگائی، بے روزگاری نے عام آدمی کی زندگی مشکل بنا ڈالی ہے، خدارا عوام کے بارے میں کچھ تو سوچیے،کچھ تو ریلیف دیں کہ غریب سانس لے سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔