جی ڈی پی کا ہدف 5 فیصد مقرر آئندہ ترقیاتی بجٹ کا حجم 2184 ارب ہوگا

وفاق کے ترقیاتی بجٹ کیلیے 800، ارکان کی اسکیموں کیلیے 91 ارب کی تجاویز، افراطِ زر کی شرح کا ہدف 11.5 فیصد منظور


کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا ہدف 10 ارب ڈالر رکھنے کی توثیق، لیپ ٹاپ اسکیم دوبارہ شروع ہو گی، احسن اقبال، خطاب۔ فوٹو: فائل

سالانہ پلان کوارڈی نیشن کمیٹی (اے پی سی سی) نے آئندہ بجٹ کے معاشی اہداف کی ابتدائی منظوری دے دی۔

گزشتہ روز وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی صدارت میں سالانہ پلان کوآرڈی نیشن کمیٹی ( اے پی سی سی ) کا اجلاس ہوا جس میں معاشی ترقی کی شرح (جی ڈی پی) 5 فیصد رکھنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جبکہ اگلے مالی سال کیلیے 2184 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ رکھنے کی تجویزہے۔

صوبوں نے 1384ارب کے ترقیاتی بجٹ تجویز کیے ہیں، آئندہ مالی سال کیلئے وفاق کا ترقیاتی بجٹ 800 ارب روپے، اراکین قومی اسمبلی کی پبلک اسکیموں کیلیے 91 ارب روپے، آزاد جموں وکشمیر، گلگت بلتستان کے لیے 95 ارب روپے،خیبر پختونخوا میں ضم شدہ علاقوں کے لیے 50 ارب روپے، پنجاب کیلئے 585 ارب روپے ، سندھ کیلئے 355 ارب ،خیبر پختون خوا کیلئے 299 ارب روپے، بلوچستان کیلئے 143 ارب روپے رکھنے کی تجویزہے۔

انفراسٹرکچر کی تعمیر پر 433 ارب روپے خرچ کرنے کا منصوبہ ہے جبکہ سماجی منصوبوں پر 144 ارب خرچ کرنے کا تخمینہ ہے، توانائی پر84 ارب اور ٹرانسپورٹ مواصلات کیلئے 227 ارب روپے شامل کئے گئے ہیں، پانی کے منصوبوں کیلئے 83 ارب، پلاننگ، ہاؤسنگ کیلئے 39 ارب مختص، زراعت کی ترقی کیلئے13 ارب اور انڈسٹریز کیلئے صرف 5 ارب کی تجویزہے، سائنس و ٹیکنالوجی کیلئے 25 ارب، گورننس کیلئے 16 ارب رکھے جائیں گے۔

آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی حکومت نے افراطِ زر کا ہدف 11.5 فیصد کی منظوری دی ہے۔ اے پی سی سی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا ہدف آئندہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی کا 2.2 فیصد یا 10ارب ڈالر سے زائد منظور کیا گیا ہے۔ اتحادی حکومت درآمدات میں نمایاں کمی کے ذریعے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا ہدف حاصل کرنا چاہتی ہے۔

رواں مالی سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا تخمینہ جی ڈی پی کا 4.1 فیصد یا 16ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ اے پی سی سی نے رواں مالی سال کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا ہدف جی ڈی پی کا ہدف 0.7 یا 2.3 ارب ڈالر منظور کیا تھا۔ معاشی نمو کا 5 فیصد ہدف رواں مالی سال میں معاشی نمو کی 6 فیصد شرح سے کم ہے، جس کے بارے میں پلاننگ کمیشن کا کہنا ہے کہ نمو کی بلند شرح کی وجہ زیادہ کھپت تھی۔

اے پی سی سی نے رواں مالی سال کے لیے افراطِ زر کی شرح کے 11.5 فیصد کی منظوری دی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سالانہ افراطِ زر کی شرح بینچ مارک سے کافی زیادہ رہے گی۔

علاوہ ازیں حکومتی دستاویز کے مطابق زراعت میں شرح نمو 3.9، صنعت کی 5.9 ، خدمات کی5.1 فیصد، مالیات اور انشورنس کی5.1 فیصد، رئیل اسٹیٹ کی 3.8، تعلیم کی 4.9 فیصد، بڑے صنعتی شعبے کی 7.4 ، چھوٹی صنعتوں کی8.3 فیصد رکھی گئی ہے، اسی طرح کپاس کی 6.3 ، لائیو سٹاک کی 3.7 فیصد، ماہی گیری کی 6.1 اور جنگلات کی 4.5 فیصد رکھی گئی۔

بعد ازاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہاکہ وزیراعظم آفس میں یونیورسٹی کا منصوبہ بوگس منصوبہ تھا اس لئے ختم کردیا جائیگا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام سے یونیورسٹی قائم کی جائیگی، گزشتہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں 400 ارب کی کٹوتی کی گئی، آئندہ مالی سال کیلئے سو ارب روپے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت رکھے گئے ہیں، ترقیاتی بجٹ کا نوے فیصد جاری منصوبوں کیلئے رکھا گیا ہے، آئندہ مالی سال کیلئے دیا مر بھاشا ڈیم کیلئے رقم مختص کی جائیگی، لیپ ٹاپ سکیم دوبارہ شروع ہوگی۔

صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے250 سپورٹس گراؤنڈ بنائیں گے، سی پیک کے منصوبوں پر کام تیز کرنے کیلئے بجٹ مختص کیا جائے گا، ایم ایل ون منصوبہ حکومت کی اولین ترجیح ہے جس کیلئے فنڈز بھی دیے، چین کے صدر سے وزیراعظم نے ایم ایل ون کیلئے خصوصی بات چیت کی،اپنی ٹویٹ میں انہوں نے کہاہے کہ عمران نیازی کی حکومت نے 4 برسوں میں ملکی تاریخ کاسب سے زیادہ 20 ہزار ارب روپے کاقرضہ حاصل کر کے خسارہ پوراکرنے میں جھونک دیاہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔