پاک ترک دوستی آخری حصہ

دونوں ممالک کے درمیان معاشرتی ہم آہنگی بھی پاک ترک تعلقات کا ایک خوبصورت سنگم ہے


Shakeel Farooqi June 10, 2022
[email protected]

MIANWALI: پاکستان اور ترکی نہ صرف دین اسلام کے اٹوٹ بندھن میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں بلکہ ان کی ثقافت میں بھی کافی تال میل ہے جس کی وجہ سے وہ یک جان دو قالب ہیں۔ ہماری قومی زبان اردو میں بہت سے الفاظ ترکی زبان کے شامل ہیں جس میں چند ایک مثال کے طور پر پیش خدمت ہیں۔

مثلاً اردو ، خاتون ، بیگ، بیگم، خاقان ، باجی ، تلاش ، سنگلاخ ، خان ، خانم ، ارسلان ( بمعنی شیر)، یلدرم ( بمعنی آسمانی بجلی)، یلغار، چاقو، باورچی، قورمہ ،آغا، آقا، قزل باش (بمعنی سرخ سر)، بابر (شیر)، ببر، آپا، بی بی، چیچک، گلگت، قزاق، قلیج (بمعنی تلوار)، توپ، طمانچہ، تیمور (لوہا ) ، تمغہ، توپچی، ایلچی، قینچی، چمچہ، کوچ، چپقلش،قیمہ ، بہادر، پاشا، چادر، سرمہ، دادا، سراغ، قابو، قاش، قولی، توشک ، چق (بانس کا پردہ)، بیلچہ، قالین، دنگل، بارود، شوارمہ، شیش کباب، جوق (جوق در جوق) ، غول ، تسمہ ، بکتر (بکتر بند)، سبکتگین (خوش چال پہلوان) ، چالاک، چغل، چقندر ، چول (صحرا چولستان)، داروغہ، سوغات، چاکر، قلاش (مفلس) ، کورنش (کورنش بجا لانا، جھک کر سلام کرنا)، نوکر وغیرہ وغیرہ۔

آر سی ڈی تنظیم نے بھی دونوں برادر ملکوں کے درمیان قربتیں بڑھانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے تاہم باہمی تعاون کو بڑھاوا دینے کی ابھی بھی بہت گنجائش موجود ہے اور تعاون میں اضافہ دونوں ممالک کے لیے بہت سود مند ثابت ہوگا۔ دونوں ممالک کے درمیان معاشرتی ہم آہنگی بھی پاک ترک تعلقات کا ایک خوبصورت سنگم ہے۔

مہمان نوازی، شہری اور دیہی زندگی میں تفاوت، مختلف رسوم مثلاً پڑوس میں کسی کی موت واقع ہونے پر متعلقہ گھر کے غم میں ممکن حد تک غمگساری اور افراد و مہمانوں کے لیے دوسرے پڑوسیوں کی جانب سے کھانے کا بندو بست، بچوں کی پیدائش گاہ اسپتال کے بجائے گھر، غیر شادی شدہ افراد کی شادی کے امکانات سے متعلق رسوم، اشیا کی گھر میں تیاری جیسے گھر میں اچار ڈالنا اور بالخصوص مربوں کی گھر میں تیاری۔ یہی رسم ترکوں میں بھی اسی انداز میں انجام دی جاتی ہے اور رشتہ داروں اور دوست احباب جمع ہوتے ہیں اور شادی کا سا سماں ہوتا ہے۔ تمام مہمانوں کے لیے کھانا اور مہمانوں کا تحائف دینا وغیرہ وغیرہ۔ ترک اردو زبان و تہذیب کو دل و جان سے عزیز سمجھتے ہیں اور اسے سیکھنا چاہتے ہیں۔

ترکی میں اردو زبان و ادب کی تعلیم کا مقصد اہل اردو اور ترکی کے مابین قدیم ترین اخوت و محبت اور تہذیبی و لسانی یکسانیت کو نئی سمت پر گامزن کرنا اور ریسرچ اسکالرز کی علمی و ادبی سطح پر تربیت کرنا ہے، تاکہ وہ اپنی قدیم ترین وراثت سے بخوبی آشنا ہوسکیں۔ ترک طالب علموں میں اردو سیکھنے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم برصغیر کی زبان و تہذیب سے ترکوں کی قلبی وابستگی ہے۔ ترکی میں اب تک اردو کے تقریبا پچاس مقالے مختلف موضوعات پر لکھے جاچکے ہیں۔

سودا، غالب، اقبال، فیض، پروین شاکر، جدید اردو شاعری ، نذیر احمد ، سجاد حیدر یلدرم ، منٹو، محمد حسین آزاد ، ابوالکلام آزاد، اردو افسانہ، اردو ناول، اردو سفرنامے ، تزک جہانگیری، دربار اکبری، تزک بابری اور برصغیر پاک و ہند اور ترکی کی تہذیبی و لسانی مماثلتیں وغیرہ موضوعات پر کام ہوچکے ہیں۔ غرض کہ ترکی میں اردو زبان و ادب کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ اردو اور ترکی زبانیں ایک دوسرے کے مماثل، نیز رسم الخط کی تبدیلی کے باوجود بے شمار الفاظ، ضرب الامثال اور محاورے مشترک ہیں۔

وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف کا حالیہ دورہ ترکی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے فروغ کے علاوہ سرمایہ کاری، تجارت، صحت، تعلیم، ثقافت اور باہمی مفاد کے دیگر شعبہ جات میں تعاون کے حوالے سے نہایت اہم تھا۔ پاکستان اور ترکی کے درمیان دیرپا اقتصادی تعاون کی ایک طویل تاریخ ہے ، لیکن دونوں حکومتوں کا خیال ہے کہ انھوں نے تیزی سے بڑھتے ہوئے دوطرفہ تعلقات میں معاشی صلاحیتوں سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا ہے۔ فروری 2021 میں صدر اردگان کے پاکستان کے دورے کے دوران دونوں ممالک نے تزویراتی معاشی فریم ورک کے معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت سائنس اور ٹیکنالوجی، دفاع، سیاحت، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں تعاون کیا جائے گا۔ پاکستان ترکی فری ٹریڈ ایگریمنٹ (ایف ٹی اے) پر ابھی کام جاری ہے۔

سیاحوں اور کاروباری افراد کی نقل و حرکت میں سہولت کے لیے دونوں ممالک گزشتہ برس ایک سٹیزن شپ معاہدے پر بھی دستخط کر چکے ہیں اور پاکستان نے اس برس ای ویزا کی سہولت کا آغاز کیا ہے۔ دونوں ممالک کی مشترکہ مسلم شناخت کا پاکستان ترکی تعاون سے گہرا تعلق ہے۔

دونوں ریاستیں سیکولر قائدین محمد علی جناح اور مصطفی کمال اتاترک کی کاوشوں سے قائم ہوئی تھیں۔ پاکستان اور ترکی کے درمیان تعاون تین امور کے گرد گھومتا ہے: دہشت گردی کا مقابلہ، افغانستان اور دیرپا دفاعی تعاون۔ پاکستان اور ترکی مقامی اور بین الاقوامی دونوں طرح کی دہشت گردی سے بخوبی واقف ہیں کیونکہ دونوں ملک علیحدگی پسند تحریکوں سے مسلسل نبرد آزما ہیں، پاکستان میں بلوچستان اور ترکی میں کردوں کی تحریک۔ پاکستانی اور ترک دفاعی و حکومتی اراکین کے مابین پاکستان میں لڑاکا طیارے اور میزائل کی تیاری کے سلسلے میں بھی اعلیٰ سطح مذاکرات منعقد ہوئے ہیں تاہم ابھی اس پر اتفاق ہونا باقی ہے۔

پاکستان نے 2018 میں ترک دفاعی کمپنی کے ہمراہ کراچی شپ یارڈ کی تاریخ کے سب سے بڑے جنگی جہاز کی تیاری کے لیے بھی معاونت کی تھی۔ اسلحے کی تیاری کے علاوہ دونوں ممالک ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی تعاون کرتے رہے ہیں۔ ٹرکش ایرو سپیس انڈسٹریز نے پاکستان کی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں تحقیق و ترقی کے لیے ایک شعبہ قائم کیا ہے جو سائبر سیکیورٹی، ڈرونز کی نگرانی اور راڈار ٹیکنالوجی پر کام کرے گا۔

پاکستان اور ترکی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے حقوق کی جنگ لڑنے کے سلسلہ میں بھی یکساں عزم کا اعادہ کیا ہے اور اسی طرح ایک دوسرے کی علاقائی تنازعوں میں بھی حمایت کی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو آرمینیا کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتا۔ پاکستان، ترک اتحادی آذر بائیجان کی جانب سے ناگورنو کاراباخ کے متنازع علاقے پر دعوے کی بھی حمایت کرتا ہے۔

ترکی بھی جواب میں کھلم کھلا کشمیر کی اتنی حمایت کرتا ہے کہ وہ بھارت کو برہم کرتی ہے کیونکہ وہ کشمیر کو اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے اور اردگان کی حمایت کو ''کھلے عام مداخلت'' قرار دیتا ہے۔ صدر رجب طیب اردگان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو ''ایک سلگتا ہوا تنازع'' قرار دیا تھا۔

پاک ترک دوستی زندہ باد۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔