حکمران طبقہ اور ایثار وقربانی کا بیانیہ

ہمیں واقعی اپنے حکمرانی سمیت پورے انتظامی سطح کو بنیاد بنا کر غیر معمولی تبدیلیاں کرنا ہوگی


سلمان عابد June 12, 2022
[email protected]

ISLAMABAD: پاکستان میں حکمرانی کا نظام مختلف تضادات اور ٹکراؤ سے جڑا ہوا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں سیاسی ، سماجی اور معاشی بے چینی پائی جاتی ہے ۔جب ریاستی نظام عوام کے اجتماعی مفادات کے برعکس چلایا جائے گا تو اس پر تحفظات ہونا فطری امر ہے۔

حکمرانی کے نظام میں موجود خرابیاں آج کی پیدا کردہ نہیں بلکہ تمام حکمران اور حکومتیں شفاف اور جوابدہی پر مبنی نظام قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس ملک پرجب بھی کوئی کڑا وقت آتا ہے تو حکمران اشرافیہ کا ایک ہی نعرہ ہوتا ہے کہ تمام طبقات اس سے نکلنے کے لیے ایثار و قربانی دین، کفایت شعاری کریں، اخراجات کم کریں ، سادگی اختیار کریں، وغیرہ وغیرہ۔ اہم سوال یہ ہے کہ خود حکمران طبقہ کتنی ایثار وقربانی کا مظاہرہ کرتا ہے۔

کیا واقعی ہمارا حکمران طبقہ مشکل معاشی حالات میں خود کو تبدیل کرتا ہے؟کیا ان کی طرز زندگی اور طرز حکمرانی میں پہلے کے مقابلے میں کچھ نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں ، اس کا جواب نفی میں ہوتا ہے ۔حکمران طبقہ ہمیشہ عام یا کمزور لوگوں سے قربانی مانگتا ہے ۔یعنی جو لوگ معاشی بدحال ہیں یا سفید پوش ہیں، ان ہی سے قربانی کا مانگی جاتی ہے ۔

اگر ہم حکمرانی کے نظام کا تجزیہ کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ ایک ایسا ملک جو معاشی دلدل میں دھنسا ہو ، اس کے حکمران اور ریاستی نوکرشاہی کیا کیا گل کھلارہے ہیں ۔آج کل بھی حکمران طبقہ عوام سے قربانی مانگ رہا ہے ۔ ستم ظریفی دیکھیں کہ پاکستان کا عام طبقہ جو پہلے ہی غربت و پسماندگی کا شکار ہے، اس سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ حالات کو قبول کرے، سمجھوتہ کرے، حکومت کے ساتھ کھڑا ہو او رجس حد تک وہ ملک کے حق میں قربانی دے سکتا ہے وہ دے ۔

یہ جو شاہانہ حکمرانی کا نظام ہے، صرف اہل سیاست تک محدود نہیں بلکہ دیگرطاقت ور طبقات اور فریقین بھی اس میں آتے ہیں، یہ وہ مراعات یافتہ گروہ ہے، جو اپنی جیب سے ایک روپیہ بھی عوام پر خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دو دن پہلے صدرمملکت عارف علوی نے سنگین معاشی و بدحالی کے باوجود ججوں کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کا فیصلہ کیا اور گزشتہ روز بجٹ میں منظور کرلیا گیا۔

ہمارے ملک کے قابل احترام ججز، اعلیٰ عسکری افسران ، سول سروسز کے اعلیٰ افسران یعنی بیوروکریسی، نیم خودمختار اداروں کے سربراہان اورافسران و مشیران، جیسے کرکٹ بورڈ ، ہاکی بورڈ، واپڈا، پی آئی اے وغیرہ ، صنعت کار ، تاجر طبقہ ، سیاسی قیادت، یہ سب طبقات یک زبان ہوکر ملک کے لیے قربانی و ایثار کی گردان تو کررہے ہیں لیکن عملاً اپنی جیبیں ہلکی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ہمارا حکمران طبقہ یہ بھول جاتا ہے کہ جب قومی سطح پر ایثار وقربانی کا نعرہ لگایا جاتا ہے تو اس کی ابتدا اوپر سے ہوتی ہے ،اسی کو مثال بنا کر دیگر طبقات آگے بڑھتے ہیں۔ حکمرانوں کی حکمت عملی ظاہر کرتی ہے کہ وہ نظام کو بدلنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔لوگ اکتاچکے ہیں بلکہ ان میں احساس بھی غالب ہورہا ہے کہ حکمرانی کا نظام محض طاقت ور طبقہ کو سہارا دیتا ہے۔

اس ملک کی طاقت ور طبقہ چاہے اس کا تعلق کسی بھی شعبہ سے ہو یا ریاستی، حکومتی ، ادارہ جاتی یا مراعات یافتہ طبقہ ہو کوئی بھی خود کو کسی بھی سطح پر جوابدہ بنانے کے لیے تیار نہیں او رنہ ہی عام آدمی کی ترجیحات اس طاقت ور طبقہ کا ایجنڈا ہے۔اس طاقت ور طبقے کا اپنا شاہانہ انداز زندگی ان لوگوں میں نفرت اور مایوسی کی کیفیت کو پیدا کرتا ہے جو ان میں ایک بڑا انتشار پیدا کرنا یا ان میں انتہا پسندانہ رجحانات کو طاقت دینے کا سبب بنتا ہے ۔اس لیے ہمارے حکمران طبقہ کا ایثار وقربانی کا بیانیہ جعلی ہے او راس کا مقصد سوائے لوگوں کو دھوکا دینے کے مترادف ہے ۔

یہ بات حکمران طبقات کو سمجھنی ہوگی کہ ہمارا مجموعی ریاستی و حکمرانی سے جڑا گورننس کا نظام ایک بڑی تبدیلی چاہتا ہے۔ اس تبدیلی کو سیاسی سطح پر سیاسی جگالی کے طور پر خراب نہ کیا جائے۔ اگر واقعی ہمیں اپنے ریاستی یا حکمرانی کے نظام کی اصلاح کرنی ہے تو پھر ہمیں موجودہ روش کو تبدیل کرنا ہوگا۔اس کے لیے ہمارے پاس واضح طو رپر ایک صاف شفاف روڈ میپ ہو جس پر سب کا اتفاق ہو اور اس کی واضح حکمت عملی موجود ہو۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا موجودہ سیاسی نظام جس میں ایک دوسرے کے بارے میں عدم برداشت یا محاز آرائی ہی بڑے ہتھیار بن گئے ہیں وہاں کون کیسے او رکہاں سے کام کا آغاز کرے۔

ہمیں واقعی اپنے حکمرانی سمیت پورے انتظامی سطح کو بنیاد بنا کر غیر معمولی تبدیلیاں کرنا ہوگی۔ یہ کڑوی گولی کھائے بغیر ہمارا قومی علاج ممکن نہیں او ربلاوجہ ہم مرض کی درست تشخیص کرنے کے بجائے خود کو دھوکا دے کر ایک ایسا راستہ ااختیار کررہے ہیں جو ہمیں مزیدحکمرانی کے برے نظام میں لے جائے گا او را س کے بڑے ذمے دار بھی کوئی او ر نہیں بلکہ ہم خود ہی ہوںگے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں