علم والے پہلا حصہ

ان بزرگوں سے تعلق کی اہم ترین وجہ میرے خاندان کے بزرگ ہیں


فوٹوفائل

جامع مسجد پیر الٰہی بخش 1948 میں قائم ہوئی، اس کے قیام کا سہرا پیرالٰہی بخش کے سر جاتا ہے، جب کہ اس مسجد کا افتتاح مولانا شبیر احمد عثمانی کے دست مبارک سے ہوا۔ دور حاضر میں اس مسجد کا روحانی ماحول حضرت مولانا عبدالقیوم چترالی کا فیض جاریہ ہے جو تقریباً سن نوے کے عشرے میں اس خانہ خدا میں بحیثیت امام و خطیب مقرر ہوئے۔

مولانا صاحب جامعہ بنوری ٹاؤن کے پہلے ناظم امتحانات بھی تھے،انکساری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ آپ نے کبھی لوگوں پر اپنے علم کا رعب نہ ڈالا بلکہ اہل مسجد میں گھل مل جاتے۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ دو چار دن اگر میں ان سے نہ مل پاتا اور گزشتہ روز جب ان سے مصافحہ کرنے جاتا تو وہ انتہائی شفیق مسکراہٹ کے ساتھ دریافت کرتے کہ ''آپ دو دن سے نظر نہیں آئے سب خیریت ہے۔'' آج جب مجھے ان کے علمی قدر ومنزلت کا ادراک ہے تو میں حیرت زدہ رہ جاتا ہوں کہ اتنی بڑی علمی ہستی اور میں ایک کم عمر بچہ وہ مجھے اتنی اہمیت دیتے یہاں تک کہ ایک وقت بعد میں ایسا بھی آیا کہ مسجد کی امامت و خطابت ان کے بیٹے مفتی عبد اللہ نے سنبھال لی ۔

ایک دن ایک نمازی بزرگ میر ے پاس آئے اور کہنے لگے''آپ بہت چھوٹے ہیں آپ مصلہ امام کے بالکل پیچھے نہ نماز پڑھا کریں کیونکہ امام اگر موجود نہ ہوں تو بالکل پیچھے جو ہوتے ہیں انھیں امامت کرنی پڑھتی ہے۔'' بہرحال کم سنی کے باعث میں بات کو کچھ سمجھا کچھ نہ سمجھا پر ان بزرگ کے احترام میں اٹھ کر مولانا صاحب کے بائیں ہاتھ کی طرف آگیا جس پر میرے مولانا صاحب نے مجھ سے استفسار کیا کہ'' آپ ادھر سے ادھر آگئے کیا انھوں نے کچھ کہا آپ سے ؟'' میں نے من وعن انھیں بتا دیا کہ بزرگ یہ کہہ رہے تھے بہرحال مجھے ایسا محسوس ہوا کہ مولانا صاحب نے اس بات کو کچھ پسند نہ فرمایا پر بڑے لوگوں کی بڑی بات، کہا کچھ نہیںخاموشی اختیار کی ،اسی طرح کے اور بھی کچھ انتہائی روشن واقعات میرے ذہن میں محفوظ ہیں جن کو صفحہ قرطاس پر لانے کے لیے ہمیشہ میں بے چین رہا ۔

ان بزرگوں سے تعلق کی اہم ترین وجہ میرے خاندان کے بزرگ ہیں ان کی معرفت ہی میں ان بلند پایہ شخصیات سے مل سکا ،ورنہ ان سے ملنا ان کی شفقتوں کا محور بننا ممکن نہ تھا۔ ہمارے بزرگ ڈاکٹر اللہ بخش کمالی مختلف سلسلوں سے بھی وابستہ تھے روحانی لحاظ سے بلند مقام رکھتے۔ بوٹنی کی ایک معروف عیسائی پروفیسر کچھ روحانی معاملات میں آگئیں آپ نے انھیں کچھ چیزیں بتائیں جن سے انھیں فائدہ پہنچا اور بھی کئی ایمان افروز واقعات ہیں جن کی وجوہات سے اللہ رب العزت نے آپ کو نماز عشاء میں سجدہ کی حالت میں اپنے پاس بلا لیا اور صرف ڈیڑھ گھنٹے میں اللہ پاک کے حضور آپ کی روانگی کی تیاری پوری ہوچکی تھی۔

ابا کہتے ہیں کہ ایسا لگ رہا تھا کہ کچھ آہنی ہاتھ بھی شریک ہیں ورنہ رات کو اتنی جلدی انتظامات کا مکمل ہونا ممکن نہ تھا اور تو اور بقول راوی جب آپ کو قبر میں اتارا گیا تو آپ کا چہرہ مبارک قبلہ رخ تھا اسے کرنا نہیں پڑا، وہ کمرہ جس میں آپ کو آخری دیدار کے لیے رکھا گیا وہ کافی عرصے تک بعداز مغرب سے طلوع فجر تک انتہائی خوشبوؤں سے معطر رہتا۔ اسی طرح سرجن ڈاکٹر ابراہیم علی خان (دادا صاحب)حیدرآباد دکن کے عثمانیہ جنرل اسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر کی زندگی میں بہت سے جلیل القدر بزرگ آئے۔

ایک بزرگ کا پڑاؤ غالبا اورنگ آباد میں تھا ان کا ہاتھ کسی وجہ سے خراب ہوگیا اس میں کیڑے پڑگئے جب وہ کیڑے نکل کر جانے لگتے تو آپ انھیں دوبارہ ڈال لیتے، اپنے ہاتھ پر کہ ان کا رزق رب نے یہاں ہی رکھا ہے یہ اور کہاں جائیں گے، جب ڈاکٹر صاحب نے یہ دیکھا کہ بزرگ کا ہاتھ تو خراب ہوگیا اور اتنی سخت تکلیف اور دھوپ میں وہ سڑک پر عبادت میں مشغول ہیں تو آپ انھیں منا کر اپنے دواخانے لے آئے ان دنوں آپ کی تعیناتی اورنگ آباد میں تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے بزرگ کا علاج کیا ہاتھ خراب ہونے کی وجہ سے کاٹ دیا گیا ورنہ زہر پھیلنے کا اندیشہ تھا، بزرگ صحت یاب ہوگئے، پر ڈاکٹر صاحب انھیں جانے نہ دیتے۔

ایک دن ہندؤ ڈائریکڑ ہیلتھ کو پتا چل گیا کہ ایک مسلمان ڈاکٹر نے ایک ملنگ کا مفت علاج کر کے اس سے دواخانے میں ہی رکھا ہوا ہے، ظاہر ہے تقسیم کے دنوں کا ذکر ہے ہندؤ مسلم اختلافات اپنے عروج پر تھے وہ ہندؤ فورا اپنے آفس سے ایکشن لینے کے لیے روانہ ہوا ۔ڈاکٹر صاحب کو کسی غیبی مدد کے ذریعے اس کی اطلاع ہوگئی وہ پریشان ہوگئے کیونکہ وہ بزرگ کو جانے کا نہیں کہنا چاہتے تھے۔ بزرگ تو بہت اللہ والے تھے انھیں ڈاکٹر صاحب کے چھپانے کے باوجود ان کی پریشانی نظر آگئی اسی وقت وہ بزرگ کرسی سے اٹھے جلال میں آکر زور سے اپنا پیر زمین پر مارا کہ وہ یہاں پہنچ نہیں پائے گا اور اسی وقت وہاں سے چلے گئے، بلاشبہ وہ ہیلتھ ڈائریکٹر نکلا تو تھا پر پہنچ نہیں پایا اس کی گاڑی کو حادثہ لاحق ہوگیا، بعد میں ڈاکٹر صاحب کو جب اس حادثے کا پتہ چلا تو وہ وہی وقت تھا جب بزرگ نے پیر زمین پر مارا تھا پھر ڈاکٹر صاحب کئی دنوں تک انھیں ڈھونڈتے رہے پر بزرگ نہ ملے۔

ایک اور اللہ والے ڈاکٹر صاحب کے گھر میں رہائش پذیر تھے۔ ایک دن ان کی پوتی نے ان سے پوچھا کہ'' نمازی دادا تو ہر وقت گھر پر رہتے ہیں عبادت میں مصروف ان کے پاس پیسے کہاں سے آتے ہیں جو وہ ہمارے لیے چاکلیٹ ، مٹھائی اور دوسری چیزیں لاتے ہیں ''تو ڈاکٹر صاحب نے کہا ''جاؤ ان کی جائے نمازاٹھا کر دیکھ لو ان کو پیسے اللہ تعالی دیتے ہیں۔'' ڈاکٹر صاحب کافی عرصے تک پینٹ شرٹ پہنتے اور کلین شیو رہے، میرے والدبھی نوجوانی میں کلین شیو اور سوٹ بوٹ میں رہتے بعد ازاں انھوں نے داڑھی رکھی اور پاجامہ کرتا پہننا شروع کیا تو آخری سانس تک آپ کا یہی پہناوا رہا، ظاہر ہے ہر چیز من جانب اللہ ہوتی ہے۔

اس لیے آئمہ حضرات سے میری عاجزانہ درخواست ہے کہ محض دو ظاہری علامتوں کی وجہ سے اپنے اورخلق خدا کے درمیان فاصلے نہ پیدا ہونے دیں چونکہ مولانا صاحب اور ان جیسے دیگر بلند مقام عالم اب دنیا سے رخصت حاصل کرگئے جو دین برحق کی نشرو اشاعت انتہائی محبت سے کرتے کیونکہ عالم صرف وعظ ونصیحت کرسکتے ہیں، دل بدلنا اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہوتا ہے کوئی اندر سے کیا ہے، یہ صرف وہی جانتا ہے یا جس نے اس کی تخلیق کی اس لیے روزجزا وسزا یعنی قیامت کے دن اس کا فیصلہ بھی وہی کرے گا۔

(جاری ہے۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔