رنگ ادب اور اکرم کنجاہی نمبر

حال ہی میں سہ ماہی ’’رنگ ِ ادب‘‘ کا کتابی سلسلہ ’’اکرام کنجاہی نمبر‘‘ اشاعت کے مرحلے سے گزرا ہے


Naseem Anjum June 26, 2022
[email protected]

MELBOURNE: حال ہی میں سہ ماہی ''رنگ ِ ادب'' کا کتابی سلسلہ ''اکرام کنجاہی نمبر'' اشاعت کے مرحلے سے گزرا ہے۔ پرچہ ضخامت کے اعتبار سے 495 صفحات کا احاطہ کرتا ہے، تصویری البم علیحدہ جو گنتی میں شمار نہیں ہے۔''رنگ ادب'' کے سرپرست اعلیٰ شاعر علی شاعر نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ''رنگ ِ ادب'' کی خوش نصیبی ہے کہ اسے وہ بڑی اور قدآور شخصیات ملتی گئیں اور وہ بلندی کی طرف سفر کرتا گیا۔ اکرم کنجاہی کا شمار اس دور کے چند ناقدین اور عبقری شعرا میں ہوتا ہے۔

شاعر علی شاعر کے اکرم کنجاہی کے حوالے سے دو مضامین شامل اشاعت ہیں، ایک کا عنوان عصر ِ رواں کا نمایندہ تنقید نگار اور دوسرا نئی نسل کا نمایندہ شاعر۔ شاعر علی شاعر نے اکرم کنجاہی کی چھ اہم کتابوں پر بھرپور تبصرہ اور تجزیہ کیا ہے، ان کی علمی صلاحیتوں سے قارئین کو مفصل انداز میں متعارف کرایا ہے۔ ان کے مضمون نے پرچے کے بارہ صفحات پر اپنی جگہ منصفی کا حق ادا کرتے ہوئے بنائی ہے۔ راغب مراد آبادی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ اکرم کنجاہی کے استاد محترم ہیں۔

''راغب مراد آبادی چند جہتیں'' یہ کتاب 2020 میں شایع ہوئی، اس کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے کہ اکرم صاحب نے جہاں راغب صاحب کے شعری سفر کو پانچ ادوار میں پیش کیا ہے، وہاں راغب صاحب سے اپنی ملاقات اور شاگرد بننے کے بعد کے حالات و واقعات بھی قلم بند کیے ہیں۔ دوسری کتابوں پر بھی انھوں نے سیر حاصل گفتگو کی ہے اور ناقدین کی آرا کو درج کیا ہے۔ ان کی تحریر کی یہ خوبی ہے کہ پڑھنے والے کے ذہنوں پر ایک جملہ بھی گراں نہیں گزرتا۔

معتبر ادبی شخصیت ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی وقیع تحریریں پرچے کی زینت ہیں۔ راغب مرد آبادی کی چند جہتیں، دامن صد چاک شعری مجموعہ دونوں مضامین ان کی تنقیدی بصیرت و بصارت کے تحت صفحہ قرطاس پر موتیوں کی مانند دمک رہے ہیں۔ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی اپنی تہذیب و تمدن سے جڑے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنی لیاقت اور تحقیق و تجربات کی بنا پر اکرم کنجاہی کی ادبی کاوشوں پر بے حد خلوص اور دیانت داری کے ساتھ قلم کا حق ادا کیا ہے، لکھتے ہیں:

کراچی کے ادبی افق پر اکرم کنجاہی کو روشن ہوئے کم ہی عرصہ ہوا ہے۔ وہ تیز و تند ہوا کے جھونکے کی مانند آئے اور کراچی کے ادبی و علمی حلقوں میں ایسے گھل مل گئے جیسے وہ برسوں کے دوست ہوں۔ ''دامن صد چاک'' کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ سچائی اور حقیقت کے شاعر ہیں۔ انھوں نے فنی رموز کو سچائی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ ''دامن صد چاک'' سے ڈاکٹر صاحب نے ان اشعار کا انتخاب کیا ہے جو شاعر کی داخلی کیفیت کے ترجمان ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:

ہمیشہ پا با گل رہتے ہیں ہجرت کر نہیں سکتے

پرندے اڑ بھی جائیں تو شجر رویا نہیں کرتے

زخم گہرے ہیں یہ سارے رگِ جاں تک میرے

زندگی نوچے گی پَر کہاں تک میرے

ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی ''راغب مراد آبادی چند جہتیں'' کا عنوان دے کر اپنے مضمون میں لکھتے ہیں ۔

راغب کی جہتوں کی تلاش میں اکرم کنجاہی ،راغب کے شعری سفر کو مختلف ادوار میں تقسیم کرکے ان کا الگ الگ تجزیہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صمدانی نے پانچوں ادوار کا مختصراً احوال حسن بیان اور حسن نظر کو بروئے کار لاتے ہوئے کیا ہے، اسی لیے ان کی تحریریں قاری کے لیے بہت سی معلومات فراہم کرتی ہیں۔

اکرم کنجاہی نمبر کی ابتداء ممتاز مزاح نگار اور صحافی محمد اسلام کے تحریر کردہ خاکے سے ہوئی ہے۔ خاکے کا عنوان ہے ''اکرم کنجاہی ادب کا کوہِ گراں۔''محمد اسلام نے اپنے خاکے کے ذریعے ان کی شخصیت اور خد و خال کا نقشہ سچائی اور دلچسپی کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ کنجاہی صاحب کی علمیت، خداداد صلاحیت، دانشوری اور شعر و سخن سے قلبی وابستگی کی عکاسی نہایت ہنرمندی اور خلوص دل کے ساتھ کی ہے۔ محمد اسلام کی تحریر سے چند سطور پیش خدمت ہیں۔ ''ڈاڑھی اور مونچھیں وہ اتنی دل جمعی سے صاف کرتے ہیں جیسے ہمارے سیاستدان اور بیورو کریٹس خزانہ صاف کرتے ہیں۔'' محمد اسلام کی تحریر کی یہ خوبی ہے کہ وہ سیاسی تڑکہ ضرور لگاتے ہیں۔ اکرم کنجاہی کی صفات و جہات کا اس طرح ذکر کرتے ہیں کہ اکرم کنجاہی صاحب نے شاعری پر ہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے نثر کو فیض یاب کیا ہے اور خاص طور پر تحقیق و تنقید کے میدان میں انھوں نے نہایت سرعت سے ملک گیر شہرت حاصل کرلی ہے۔

رانا خالد قیصر نے اپنے مضمون ''صاحب نقد و نظر اکرم کنجاہی'' کے عنوان کے تحت بہت فکر انگیز مضمون لکھا ہے۔ مغربی نقاد ڈرائیڈن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں، اگرچہ وہ خود ایک شفاف نقاد تھا، اس نے کہا کہ نقادوں میں نفرت کا جذبہ بہت شدید ہوتا ہے، اکرم کنجاہی کی تحقیق و تنقید میں نکتہ چینی کا عنصر اور برائیاں نکالنے کا ہرگز نہیں ہے۔ اکرم کنجاہی کی تخلیقات عصر رواں کی ادبی فضا سے ہم آہنگ ہے وہ جہاں تخیل کی افادیت پر یقین رکھتے ہیں وہیں نیچرل کے مضامین سے متفق بھی ہیں اور نئی جہتوں کے لیے متجسس بھی، اسی مضمون سے چند اشعار، جو احساس فکر اور معاشرتی کرب کے عکاس ہیں۔ انھوں نے اپنی واردات قلبی کو شاعری کے پیکر میں اس طرح ڈھالا ہے کہ قاری بھی کرب اور دکھ کی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے۔

زمین پر کچھ نہیں، افلاک میں رکھا ہی کیا ہے

ہمارے دامن صد چاک میں رکھا ہی کیا ہے

پھول، تتلی، کھیت، سرسوں اور کھلونے اب کہاں

اب تو بچپن کے بنا ہی بچپنا کٹنے لگا

ڈاکٹر فرحت عباس نے اکرم کنجاہی کے شعری مجموعے ''دامن صد چاک'' پر تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ''اکرم کنجاہی نسل نو کی نمایندگی کرنے والے صاحب اسلوب شاعر ہیں۔ انھوں نے ایک نئی شاعرانہ روش اختیار کی ہے جس سے ان کے کلام کے حسن میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اکرم کنجاہی کی شاعری احساس فکر اور بصیرت کی آئینہ دار ہے۔ ڈاکٹر فرحت عباس نے کچھ اشعار بھی نمونے کے طور پر شامل مضمون کیے ہیں۔

چراغ شب کو بنایا مکان کا سورج

لیا کسی سے اُجالا نہ دان کا سورج

اسی لیے ہے زمین و زمان کا سورج

کہ بس وہ ایک ہے روزی رسان کا سورج

ممتاز صحافی، شاعر اور فکشن رائٹر زیب اذکار نے ''اکرم کنجاہی کا ایک اور تخلیقی کارنامہ '' کے عنوان سے جو مضمون لکھا ہے اس میں انھوں نے نسائیت کے حوالے سے اکرم کنجاہی کی تخلیقات پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ انھوں نے مزید لکھا ہے۔ اکرم کنجاہی کئی میدانوں کے شہسوار ہیں، اگرچہ وہ کسی تحریک یا نظریے کا حصہ نہیں ہیں مگر ان کی شاعری میں فکری تازگی کے ساتھ ساتھ تخلیقی سچائی ہے ان کا تنقیدی کام اعلیٰ معیار کے ساتھ مقدار میں بھی قابل قدر ہے۔

''رنگ ادب'' کے اس خصوصی شمارے میں تقریباً پاکستان بھر کے اہم قلم کاروں نے اکرم کنجاہی کی ادبی و شعری کاوشوں پر اظہار تہنیت کا اہتمام اپنی تحریروں کے ذریعے کیا ہے۔ انھیں بحیثیت نقاد بھی اکابرین ادب نے خلوص دل کے ساتھ سراہا ہے۔

پروفیسر شہناز پروین کے مضمون کا عنوان ہے ''ہمہ صفت انسان، ہمہ جہت تخلیق کار ۔ '' شہناز پروین نے ان کی وطن اور اسلام سے محبت کا تذکرہ کیا ہے۔ اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ ان کا انداز بیاں سادہ اور سلیس ہے، ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ تخلیقات کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد اپنی قیمتی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔

لندن سے یشب تمنا نے ان کی تخلیقی سرگرمیوں کے بارے میں قارئین کو آگاہی کچھ اس انداز سے دی ہے کہ وہ ایک علم دوست گھرانے اور ادب پرور ماحول سے تعلق رکھتے ہیں، اپنی صلاحیت اور علمیت کی بنا پر ایک طرف ہندسوں سے کھیلتے ہیں تو دوسری طرف الفاظ سے۔ ایک وقت میں شاعری کرتے ہیں تو دوسرے وقت میں نثر نگاری، کبھی نقاد ہیں کبھی محقق، ادبی رسالے کے مدیر ہیں تو ساتھ میں ٹی وی پر پنجابی شعر و ادب اور تاریخ کے مبصر بھی۔

خالد دانش جو خود بھی بہت اچھے قلم کار ہیں اور شعر و سخن کی تخلیق میں پوری دسترس رکھتے ہیں۔ بڑے خوبصورت اور بامعنی الفاظ سے اپنی تحریروں کو مرصع کرتے ہیں۔ ان کا مضمون ''ایک شعلہ بیاں مقرر اور دنیائے ادب کے سلطان الادبا'' اب یہ عنوان ایسا ہے گویا اس میں ہی اکرم کنجاہی کے تخلیقی کارنامے ختم ہو گئے ہیں، بہت ہی جامع، مدلل ان کی تحریر ہے۔ اکرم کنجاہی کی بہت ساری صفات و جہات پر خوبصورتی سے روشنی ڈالتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔