لسی اور ستو بیچ کر…

دنیا بھر میں حکومتیں یونیورسٹیوں پر سرمایہ کاری کرتی ہیں، جس کے نتیجہ میں اعلیٰ معیار کی تحقیق ہوتی ہے


Dr Tauseef Ahmed Khan July 07, 2022
[email protected]

ملک کی ترقی کا دار و مدار تحقیق پر ہے۔ یونیورسٹیاں تحقیق کے ذریعہ ملک کے تمام ریاستی اور غیر ریاستی اداروں کی رہنمائی کرتی ہیں۔

سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیوں کو گرانٹ دینے کا ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن ہے۔ ایچ ای سی سرکاری یونیورسٹیوں کو صرف گرانٹ ہی نہیں دیتا بلکہ نصاب کو جدید ترین خطوط پر استوار کرنے ، اساتذہ کی اہلیت اور ان کی مراعات اور نئے کورس شروع کرنے اور طلبہ کی اہلیت کے تعین کے لیے بھی ہدایات جاری کرتا ہے۔ ہائرایجوکیشن کمیشن آج کل اپنے چیئرمین سے محروم ہے۔

کمیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر شائستہ سہیل قائم مقام چیئر پرسن کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ موجودہ حکومت مالیاتی خسارہ میں قائم ہوئی ہے اور اس خسارہ کے بحران کو ختم کرنے کے لیے جستجو میں مصروف ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی سرکاری یونیورسٹیوں کی گرانٹ میں کمی کے لیے ایک ماحول تیارکیا۔

وفاقی وزارت تعلیم نے تجویز دی کہ اس گرانٹ میں 60 فیصد کمی کی جائے۔ اساتذہ اور سول سوسائٹی نے اس تجویزکو مسترد کیا۔ منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال کو وضاحت کرنی پڑی کہ حکومت یونیورسٹیوں کی گرانٹ میں 60 فیصد کمی کی تجویز پر غور نہیں کررہی ، مگر وفاقی بجٹ میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے مختص کردہ رقوم منظر پر آئیں تو پتہ چلا کہ حکومت 66 بلین روپے فراہم کرے گی جب کہ یونیورسٹیوں کے اپنے روزمرہ کے معاملات کو چلانے کے لیے 107 بلین روپے کی ضرورت ہے۔

فوری طور پر اس مسئلہ کا حل تلاش کیا گیا یا کسی دانا فرد نے یہ بات سمجھائی کہ یونیورسٹیاں اس گرمی کے موسم میں ماضی کا مشروب ستو اور لسی تیار کریں اور اس کو مارکیٹ میں فروخت کریں ، یوں مالیاتی خسارہ دور ہوجائے گا۔ یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ یونیورسٹیوں کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے ڈپارٹمنٹ اپنی تحقیق کو پیٹنٹ کرائیں اور مارکیٹ میں فروخت کردیں۔ ستو اور لسی کو فروخت کر کے یونیورسٹیاں چلانے کا فارمولہ سامنے آیا تو عمران خان کی حکومت کی اس بارے میں تجاویز اہم ہوگئیں۔

سابقہ حکومت نے ماضی کی روایت پر عمل کرتے ہوئے شعبہ تعلیم کو اہمیت نہیں دی۔ عمران خان نے انتخابی مہم میں جوشِ خطابت میں اعلان فرمایا تھا کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کردیں گے۔ عمران خان اپنے دورِ اقتدار میں اپنی نجی رہائش گاہ بنی گالا کے علاقہ میں ہی قیام کرتے رہے۔ وہ روزانہ ہیلی کاپٹر پر وزیر اعظم ہاؤس آتے اور اسی طرح واپس چلے جاتے تھے۔ سابقہ حکومت کے وزیر فواد نے حساب لگا کر مسئلہ حل کیا تھا کہ ہیلی کاپٹر کا خرچ چند روپوں کا ہے۔ بہرحال عمران خان کی حکومت نے وزیر اعظم ہاؤس میں قائم ہونے والی مجوزہ یونیورسٹی کے لیے کئی ارب روپے خرچ کرنے کا منصوبہ تیارکیا تھا۔

جب وفاقی بجٹ میں ایچ ای سی کے بجٹ میں کمی کردی تھی۔ اس وقت کے ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری نے رقم میں اضافہ کے لیے عرض داشت بھیجی تو عمران خان نے فیصلہ دیا کہ یونیورسٹیاں اپنی قیمتی اراضی فروخت کرکے مالیاتی خسارہ پر قابو پائیں۔ ڈاکٹر طارق بنوری کی شخصیت پر سخت اعتراضات ہوتے ہیں مگر انھوں نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے استدعا کی کہ یونیورسٹیاں اپنی قیمتی اراضی فروخت کر کے نئے تضادات کا شکار ہونگی۔

تاریخ بتاتی ہے کہ سرکاری اراضی کی فروخت میں بڑے بڑے گھپلے ہوتے ہیں اور پھر یونی ورسٹی کے معاملات نیب اور اینٹی کرپشن والوں کے پاس چلے جاتے ہیں۔ سابقہ دور میں کئی وائس چانسلر اسی طرح کے الزامات میں گرفتار ہوئے اور ان کو اسی طرح رسوا کیا گیا جیسے کسی عادی مجرم کو کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر طارق بنوری کے اس جرات مندانہ جواب پر ان کی ملازمت گئی۔ ایوان صدر سے جاری ہونے والے ایک آرڈیننس کے ذریعہ ایچ ای سی کے چیئرپرسن کے عہدہ کی میعاد دو سال کردی گئی۔ ڈاکٹر طارق نے ایک طویل قانونی جنگ لڑی۔

ستو اور لسی کی تجویز یہ کسی صورت عملی تجویز نہیں ہے، یہ تو ممکن ہوسکتا ہے کہ کچھ یونیورسٹیوں میں فوڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ ہیں، وہ اپنی تحقیق کر کے پینے کا ایسا مشروب تیار کریں جو مارکیٹ میں موجود مشروبات سے ذائقہ اور معیار میں اچھا ہو تو اس پروڈکٹ کو پیٹنٹ کراکے فروخت کیا جاسکتا ہے اور اس رائیلٹی سے یونیورسٹی کی آمدن ہوسکتی ہے۔ جس طرح ایک میڈیکل یونیورسٹی نے اپنی لیباریٹری کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایا ہے اور ان کی لیباریٹری کے ٹیسٹ معیاری اور دیگر لیباریٹریوں کے مقابلہ میں سستے ہوتے ہیں تو یہ اس یونیورسٹی کی آمدنی کا مفصل ذریعہ ہے۔ اسی طرح دیگر یونیورسٹیاں اپنے متعلقہ ڈپارٹمنٹ کے ذریعہ کچھ کرسکتی ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں بعض یونیورسٹیاں مکمل طور پر سولر سسٹم پر منتقل ہوگئی ہیں اور اپنی فاضل بجلی واپڈا کو فروخت کرتی ہیں۔ یورپ اور امریکا کی یونیورسٹیاں جو تحقیق کرتی ہیں ، اس تحقیق کی بنیاد پر پروڈکٹ کو پیٹنٹ کر کے فروخت کیا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں حکومتیں یونیورسٹیوں پر سرمایہ کاری کرتی ہیں، جس کے نتیجہ میں اعلیٰ معیار کی تحقیق ہوتی ہے اور اس تحقیق کے عملی اطلاق سے نہ صرف یونیورسٹی کی آمدنی بڑھتی ہے بلکہ ملک کا بھی فائدہ ہوتا ہے۔ صحافت کے سینئر استاد پروفیسر ذکریا ساجد کہتے تھے کہ امریکا میں بڑے صنعت کار یونیورسٹیوں کو بڑے پیمانہ پر گرانٹ دیتے تھے۔ اس ضمن میں امریکا کے مشہور صنعت کار فورڈ گروپ کی فیاضی کا ذکر ہوتا ہے۔

کہا جاتا تھا کہ فورڈ گروپ نے کئی پلانٹ لگائے مگر بعد میں حقائق سے ثابت ہوا کہ پلانٹ کی فزیبلٹی صحیح تیار نہیں ہوتی تھی اس بناء پر منافع کی شرح کمپنی کے طے شدہ فارمولہ سے کم تھی تو کمپنی کی انتظامیہ نے پورا پلانٹ مقامی یونیورسٹی کو تحفہ کے طور پر دے دیا اور یہ پلانٹ یونیورسٹی کی آمدنی کا ذریعہ بن گیا ، مگر پاکستان میں فیاضی کے مظاہرے سڑکوں پر تو نظر آتے ہیں مگر بہت کم صاحبِ ثروت صنعت کار ہیں جنھوں نے یونیورسٹیوں کو خطیر رقم کے عطیات دیے ہیں۔ تحقیق کا دار و مدار گرانٹ پر ہے اور یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ ملک کی یونیورسٹیوں کو جدید ترین یونیورسٹیاں بنانے کے لیے ان کی تمام ضروریات پوری کرے۔ حکومت کو دفاع سمیت غیر پیداواری اخراجات کم کرنے چاہئیں اور یونیورسٹیوں کو خوشحال کرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں