عوام کا فیصلہ

گزشتہ ہفتے ملک گیر سطح پر مثبت کیسوں کی شرح3.41 فی صد رہی


MJ Gohar July 08, 2022
[email protected]

گزشتہ دو برس سے جہاں پوری دنیا کورونا وبا کی لپیٹ میں رہی، وہیں وطن عزیز میں بھی اس مہلک وبا نے قومی زندگی کے تمام شعبوں کو بری طرح متاثرکیا۔ دنیا بھر میں معاشی سرگرمیاں معطل ہوکر رہ گئیں اورنظام زندگی درہم برہم ہوگیا۔

پاکستان کی معیشت جو پہلے ہی قرضوں کے بوجھ اور آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے، کورونا کے کاری وار سے مزید زبوں حالی کی طرف چلی گئی۔ نئے سال کے آغاز پر دنیا کے مختلف ممالک میں کورونا کیسوں اور مریضوں کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ اسی طرح پاکستان میں بھی صورتحال میں خاصی بہتری آگئی تو کورونا کو مانیٹر کرنے والا ادارہ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر (این سی او سی) بند کردیا گیا۔ کورونا پابندیاں ختم کردی گئیں۔

تعلیمی ، معاشی ، سماجی ، سیاسی اور دیگر تمام شعبوں کی سرگرمیاں بحال ہوگئیں۔ لوگوں نے سکون کا سانس لیا اور روز مرہ کی زندگی میں مصروف ہوگئے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں سے ملک کے مختلف شہروں میں کورونا کیسز کی تعداد میں ایک مرتبہ پھر اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ کورونا کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ہفتے ملک گیر سطح پر مثبت کیسوں کی شرح3.41 فی صد رہی جب کہ صوبہ سندھ میں کورونا متاثرین کی تعداد تشویشناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ دو اموات بھی ریکارڈ کی گئیں جب کہ سو سے زائد مریضوں کی حالت تشویش ناک بتائی جارہی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں دو ہزار کے لگ بھگ افراد کے کورونا ٹیسٹ کیے گئے جن میں 390 افراد کی رپورٹ مثبت آئی۔ کہا جا رہا ہے کہ فوری اقدامات نہ اٹھائے گئے تو خدشہ ہے کہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوجائے۔

صورتحال کی سنگینی اور امکانی خطرات کے پیش نظر حکومت نے ایک مرتبہ پھر این سی او سی کو بحال کر دیا ہے اور ادارہ ہذا نے فوری طور پر سرکاری دفاتر کے لیے ایس او پیز جاری کر دیے ہیں جن کے تحت آفس میں ماسک کا استعمال، مصافحہ کرنے سے گریز ، سماجی فاصلے کی پابندی ، سینی ٹائزر کا استعمال اور دفاتر آنے والے لوگوں کے لیے ویکسین سرٹیفیکیٹ لازمی قرار دیا گیا ہے۔

ادھر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے تیزی سے پھیلنے والی ایک نئی بیماری '' منکی پاکس'' میں اضافے کے خدشات و خطرات ظاہر کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ منکی پاکس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ضروری تدابیر اختیار کی جائیں۔ عالمی ادارے کا بروقت انتباہ اس امر کا متقاضی ہے کہ ہم محتاط اور ہوشیار ہوجائیں۔ پاکستان میں ڈینگی وائرس کے کیسز بھی سامنے آرہے ہیں۔ شہر قائد میں جون کے مہینے میں 24کیسز اور سندھ بھر میں 280کیسز ریکارڈ کیے گئے۔

ارباب اقتدار کو صورتحال کی سینگنی کا ادراک کرنا چاہیے اور خطرے کے بڑھنے سے قبل ہی ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھا لینے چاہئیں کہ ہم گزشتہ سال کورونا کی تباہ کاریوں سے بری طرح متاثر ہوچکے ہیں۔ کورونا وائرس کے قومی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات سے ہم آج تک نہ نکل سکے۔ نہ ہی نقصانات کا ازالہ ممکن ہوسکا نتیجتاً ملک کو عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے سامنے دست سوال دراز کرنا پڑا۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پاؤں کی زنجیر بن گئیں۔

حکمران پریشانی کے عالم میں ہیں کہ آئی ایم ایف ہمیں تگنی کا ناچ نچا رہا ہے اور ناک سے لکیریں نکلوا رہا ہے۔ موجودہ حکومت معیشت کی موجودہ زبوں حالی اور آئی ایم ایف کے بڑھتے ہوئے دباؤ اور کڑی شرائط پر اڑ جانے کا ذمے دار سابقہ عمران حکومت کو ٹھہرا رہی ہے۔

دلیل یہ دی جارہی ہے کہ عمران خان نے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور اپنی حکومت کو بچانے کے لیے آخری وقت پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم دیں جس سے آئی ایم ایف کو دھچکا لگا اور ہمیں اس کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑا۔ موجودہ حکومت نے جو ''شاندار بجٹ'' پیش کیا آئی ایم ایف تو اس بجٹ پر بھی ناخوش تھا اور خود وزیر خزانہ نے نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں اس بات کا انکشاف کیا تھا۔ خود ن لیگ کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی موجودہ معاشی اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں جس کا وہ برملا اظہار کر رہے ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ ملک کی معاشی تباہی، قومی وسائل کی لوٹ مار اور ملکی خزانہ خالی ہونے کا الزام سابقہ عمران حکومت پر ڈالا جارہا ہے، آپ پاکستان کی سیاسی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں۔ برسر اقتدار آنے والی ہر حکومت ملک کی ہر خرابی کا ذمے دار پچھلی حکومت کو ٹھہراتی رہی ہے اور خود کو قوم کا ایسا مسیحا بناکر پیش کرتی ہے کہ اب ہم اقتدار میں آگئے ہیں، ماضی کی خرابیوں کو درست کریں گے۔

ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے اور عوام کے جملہ مسائل حل کیے جائیں گے انھیں غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کے عذاب سے ہم نجات دلائیں گے۔ موجودہ مخلوط حکومت بھی ایسے ہی بلند و بانگ دعوے کر رہی ہے۔

آپ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی گزشتہ حکومتوں کی کارکردگی اور ان کے رہنماؤں کے بیانات نکال کر دیکھ لیں۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نظر آئیں گی۔ ایک دوسرے پر الزامات کی طویل فہرست دونوں کے ریکارڈ میں موجود ہے۔

ذرا اسے نکال کر دیکھنے کی زحمت کرلیں اور عوام کے درد کو عوام کی سطح پر جاکر محسوس کریں کہ آج وہ کس طرح اس مہنگائی کے طوفان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ قومی ادارہ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح گزشتہ 13سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ جب کہ عمران حکومت کے دور میں مہنگائی کی زیادہ سے زیادہ شرح 14.6فی صد تھی اور آج یہ شرح 21.32 فی صد ہے۔ شہباز حکومت نے صرف تین ماہ میں عوام کو مہنگائی کے سمندر میں ڈبو دیا ہے۔

بعض مبصرین و تجزیہ نگار یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی یہ دونوں ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ تین تین مرتبہ اقتدار میں رہ چکی ہیں انھیں ملک کی معاشی صورت حال کا اچھی طرح علم تھا اور آئی ایم ایف کی کڑی شرطوں کا بھی ادراک تھا اور عمران حکومت کے کمزور معاشی فیصلوں سے بھی آگاہ تھی تو پھر محض ڈیڑھ سال کے لیے مخلوط حکومت بنانے کے لیے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا غیر دانشمندانہ فیصلہ کیوں کیا؟ تھوڑا صبر کرلیتے تو پی ٹی آئی کی اگلے الیکشن میں سیاسی شکست یقینی تھی لیکن عمران کو ہٹاکر انھیں سیاسی شہید بناکر مقبولیت کے عروج پر پہنچا دیاگیا ہے اور اب پی پی پی اور ن لیگ اپنی سیاسی بقا کے لیے بودے دلائل دے کر ہاتھ پاؤں مار رہی ہیں۔ اب صرف عوام کا فیصلہ ہی تینوں جماعتوں کے مستقبل کا تعین کرے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔