پنجاب بہ مقابلہ پنجاب
میرا دکھ وہ سمجھے گا جس نے جناح کی جوتی میں پیر ڈالنے کی کوشش کی ہوگی
NEW YORK:
ہماری آواز نقار خانے میں کسی طوطی کی مانند ہی رہی ہے، قارئین گواہ ہوں گے ہم جو یہاں رقم کرتے رہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ ہمارا درد بھی کچھ اسی طرح کا ہے ۔
جو ہم پے گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
میرا دکھ وہ سمجھے گا جس نے جناح کی جوتی میں پیر ڈالنے کی کوشش کی ہوگی۔ چودہ اگست 1947 سے آج تک کا سفر، کتنے نشیب و فراز آئے۔ آبادی کے اعتبار سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک بربادی کے اعتبار سے آج چوتھے نمبر پر کھڑا ہے۔ عورتوں کی بہبود کے مروج پیمانے پے ہم سے صرف افغانستان پیچھے رہ گیا ہے، باقی ساری دنیا ہم سے آگے ہے۔
ہمارا پاسپورٹ دنیا میں نیچے سے چوتھے نمبر والی پہچان رکھتا ہے۔ دیوالیہ کے اعتبار سے جو دنیا کے بیس ممالک ہیں، اس میں ہم چوتھے نمبر پر آئے ہیں۔ ایک طویل فہرست ان بربادیوں کی انصاف کی فراہمی سے لے کر پانی کی نکاسی تک۔ اور اب یہ دیار ہے جس کی چھائوں جو گھنی تھی، زرد پتوں کا بن ہے، اب جو میرا دیس ہے، درد کی انجمن ہے جو میرا دیس ہے۔
ایک بھنور بن گئی ہے سیاست اس مملکت خداد کی۔ اپنے آپ کو اندر سے کھوکھلا کر گئی ریاست کو ڈس گئی کچھ اس طرح کہ اب تو سنبھلنے میں شاید دہائیاں درکار ہوں کہ شاید اب کے بہت دیر بھی ہوگئی ہو۔
اس بار دنگل پنجاب میں ہے۔ کل یہ دنگل بنگال میں تھا، پنجاب کیا پورا مغربی پاکستان خاموش تماشائی تھا بلکہ اس جرم میں شریک تھا۔ صرف چند گنی چنی آوازیں تھیں۔ بھٹو صاحب اس پنجاب کے محبوب لیڈر تھے جس نے مشرقی پاکستان کے اس بیانیے میں 67 فیصد ریکارڈ ووٹ کرایا تھا، اسٹیبلشمنٹ اور مغربی پاکستان کے جاگیر دار، گدی نشین اور قبائلی وڈیرے ایک ساتھ تھے۔ سانحہ ہوا ملک ٹوٹ گیا، وہ ہماری سیاست کے بھنور سے آزاد ہوئے۔ یحییٰ پے یا جن کو جسٹس حمود الرحمان کمیشن نے مجرم ٹھہرایا ان پے ٹرائل نہ چلا، کسی کو سزا نہ ہوئی۔ سزا ہوئی تو بھٹو کو ہوئی جس نے اس ملک کو ایٹمی طاقت بنایا۔
مشرقی پاکستان والے اپنی آزادی کا دن 1971 سے لیتے ہیں، ہم 1947 سے، لیکن کہاں ہے جناح کا وہ بیانیہ، وہ گیارہ اگست کی تقریر ، ایک سقوط ہے جو خود مزار قائد ہے ورنہ جو ان کی بہن فاطمہ جناح کے ساتھ ایوب خان اور اس کے طبلچیوں نے کیا، وہ بھی تاریخ کو یاد ہے۔ ایوب اور یحییٰ کی تباہیوں کے بعد 1971 سے نیاسفر شروع ہوا، اسلامی سربراہی کانفرنس، سرد جنگ کے پس منظر میں، بہت جرأت مندی دکھائی، سزا تو ملنی تھی، خود اعتمادی بھٹو میں کچھ حد سے زیادہ تھی۔ وہ سمجھے عوام ان کے ساتھ ہے اب وہ ناقابل تسخیر بن گئے ہیں۔ مگر جو انھوں نے اپنے مخالفین کے ساتھ کیا، وہ ان کو تنہا کر گیا۔ بھلے عوام ان کے ساتھ تھی۔ جو دو تہائی اکثریت حاصل کی وہ ان کے گلے پڑ گئی۔
امریکا کو اتنا آزاد لیڈر تیسری دنیا میں درکار نہیں تھا۔ اس نے اپنی بیٹی کو یہ سبق خوب پڑھایا، اپنے جیل کے زمانوں میں کہ امریکا سے ٹکر لینا اس کی غلطی تھی۔ سرد جنگ کے پس منظر کا زمانہ تھا لیکن امریکا کا صدر اس وقت جمی کارٹر تھا، انسان پرست اور مہذب شخص جس نے خود بھٹو کو پھانسی نہ دینے کی اپیل کی تھی، اس کی ناک تلے سی آئی اے بھٹو کے اقتدار کے خلاف سازش کرتی رہی، اب تو سامنے آئے ہوئے ڈاکیومنٹ سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ یہ کام کسی اور سے نہیں جنرل ضیاء الحق سے کروایا جو اردن کے شاہ حسن کو اپنی خدمات دے کے پاکستان واپس لوٹے تھے۔
بے نظیر نے جنرل ضیاء الحق کے پروپیگنڈا کا بھرپور تعاقب کیا کہ ایم آر ڈی کی تحریک امریکا دشمن ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ تو ہماری جمہوری قوتوں کا، دونوں کا جھکائو امریکا کی طرف تھا کہ دنیا unipolar ہو چکی تھی، سرد جنگ ختم ہو چلی تھی۔ امریکا دونوں کے ساتھ چلتا رہا۔ جب کہ جمہوریت اور اسٹیبلشمنٹ اندر سے ابھی گتھم گتھا تھی، بے نظیر ماری گئی۔
جنرل ضیاء الحق اور دیگرکی موت کے بعد جنرل ضیاء الحق کا بنایا بیانیہ اور مضبوط ہوا اور اب ہے یہ پاکستان، قرضوں کے بوجھ سے چور۔ اس کی 80 فیصد توانائی کی ضروریات کے لیے ڈالر چاہییں، دوائیوں اور خوراک کے لیے بھی ڈالر چاہییں کہ اب ہم خوراک میں بھی خود کفیل نہیں رہے،کہ دریا سوکھ گیا ہے، ماحولیاتی تبدیلیاں آ رہی ہیں اور ہماری سیاست ہے کہ ابھی تک سنبھل نہیں رہی۔ جب نیوٹرل بننا تھا تب نہ بنے اور جب نیوٹرل بنے ہیں، تب بھی دیر آید درست آید والی بات ہے۔
زمینی حقائق میں یہ جو قیادت ہے وہ یہی ہے۔ ایک طرف خان صاحب جن کو جمہوریت سے کوئی سروکار نہیں، اگر اقتدار میں لائیں تو بہتر ورنہ وہ آئین شکنی سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ان کا رویہ سیاست کی طرف فاشسٹ والا ہے۔ پاپولر تو ہٹلر بھی تھا مگر آج یہ جرمن قوم مانتی ہے کہ ہٹلر کے بیانیے نے جرمن قوم کو یرغمال کیا اور تباہی کی طرف لے گیا۔
ہماری مارکیٹ کا خان صاحب پے کوئی اعتبار نہیں۔ جب عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو اسٹاک ایکسچینج ایک ہزار پوائنٹس اوپر گئی اور ڈالر دس روپے نیچے آیا تھا۔پھر خان صاحب زبان سے شعلے اگلنے لگے اور پوری آزادی کے ساتھ گھیراؤ جلاؤ کا بیانیہ لے کر اسلام آباد پر چڑھ دوڑے، اسٹاک ایکچینچ گرنے لگی اور ڈالر کی قیمت بڑھنے لگی، لیکن خان صاحب اور ان کے ساتھ ریلیف لیتے رہے اور سیاسی مخالفین ہی نہیں بلکہ امریکا اور آئی ایم ایف مخالف بیانئے لے کر جلسے کرتے رہے، پھر پنجاب میں ضمنی انتخابات میں کامیاب ہوئے تو مارکیٹ دھڑام کرکے نیچے آگئی اور ڈالر بے لگام ہوگیا۔ کیوں کہ اس وقت ملکی معیشت کو بہت خطرات لاحق ہیں۔
وہ melt down یا دیوالیہ ہونے کہ کنارے کھڑی ہے۔ اس وقت سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ مشکل سے ہمارے وزیر خزانہ اور ہمارے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے آئی ایم ایف سے لے کر ایف اے ٹی ایف تک کامیابیاں حاصل کر لی تھیں مگر اب تو وہ بھی خطرے میں ہیں۔
ہمیں بتائیں خان صاحب کے پاس کون سی خارجہ پالیسی ہے؟ وہی پالیسی جو ان کو عین اس وقت روس لے جاتی ہے جب وہ یوکرائن پے حملہ کرنے جاتا ہے؟ وہ پالیسی کہ افغانستان میں جو ظلم عورتوں پے طالبان حکومت نے برپا کیے ہیں،اپنے مخالفین پے کیے، اس پے ہم چپ رہیں؟ تو پھر کیا ایف اے ٹی ایف کوئی رعایت دے گا؟ مجھے کوئی بتائے خان صاحب کے پاس کون سی معاشی پالیسی ہے؟
جتنے بدعنوانیوں کے اسکینڈل ان کے زمانے میں آئے، جتنا بلڈر مافیا راج کرتی رہی، جتنے قرضے لیے گئے، وہ سب آپ کے سامنے ہیں اور خان صاحب جنرل ضیاء الحق کے بیانیہ کا تسلسل ہے۔ کسی بھی لحاظ سے نہ امریکا کو پسند رہے، نہ یورپی یونین کو، نہ چین کو نہ عرب کو نہ یواے ای کو۔
باقی یہ سچ ہے کہ خان صاحب کا اسٹائل خوب ہے۔ لگتا ہی نہیں کہ وہ 67 سال کے ہیں۔ کپڑے بھی خوب پہنتے ہیں،برطانوی سوشلائٹ کے کلچر کو انجوائے کرنا جانتے ہیں، اسپورٹس مین ہیں اور جو تقاریر کرتے ہیں ان میں ٹچ بھی بڑا اچھا دیتے ہیں کہ آج مذہبی جماعتوں کا جو بیانیہ تھا اس کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں اور ان کے بھی ووٹ چرا کے لے گئے ہیں۔
اس بار یہ جنگ گھمسان کی ہے جس کی آگ بہت خطرناک حد تک ابھر آئی ہے۔ ہم نے آئین کی طرف نہیں لوٹنا، ہم نے نظریہ ضرورت کو لے کر چلنا ہے جس طرح ہمارے جسٹس ثاقب نثار نے کیا۔ یقینا اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ ہمیں اب کوئی ڈالر دینے کو تیار نہیں، اب ہمیں ادھار پٹرول بھی نہیں ملنے والا جب کہ لگ بھگ تیس ارب ڈالر چاہییں رواں سال balance of payment کا خسارہ پورا کرنے کے لیے۔
ہماری امپورٹ 80 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ ہماری ایکسپورٹ اور remittance پچاس سے پچپن ارب ڈالر ہے۔ ہمیں بیرونی قرضوں کی قسطیں بھی ادا کرنی ہیں۔ہمیں فوری طور پر سیاسی استحکام چاہیے جو خان صاحب کو کسی بھی لحاظ سے وارا نہیں کھاتا۔ وہ ایک ایسی کشتی میں سوراخ کر رہے ہیں جس پے وہ خود بھی سوار ہیں۔