جستجو ہی سہی محبوب کا تخیل

ایک ایسی قوم میں جہاں شدید قحط الرجال ہے، میرے پہلے باس محبوب الحق کا وجود اندھیرے میں روشنی سے کم نہ تھا


مرتضیٰ سید August 03, 2022

آج معاشیات کے بارے میں ، میں جو کچھ بھی جانتا ہوں اور جو واقعی جاننے کے قابل ہے وہ مجھے محبوب الحق نے سکھایا۔

ایک ایسی قوم میں جہاں شدید قحط الرجال ہے، میرے پہلے باس محبوب الحق کا وجود اندھیرے میں روشنی سے کم نہ تھا۔ 1960ء کی دہائی میں منصوبہ بندی کمیشن کے چیف اکانومسٹ کی حیثیت سے انھوں نے ایوب دور کے مشہور و معروف بلند شرح ہائے نمو کا پول کھول دیا۔ انھوں نے یہ ثابت کرکے دکھایا کہ ریاستی وسائل کا بے دریغ استعمال کرکے مضبوط اجارہ داریاں قائم کی گئیں جن سے کاروبار کا گلا گھٹ گیا اور وہ صرف سبسڈیز سے چل سکیں۔ نتیجتاً اس نمو کے فوائد پر مٹھی بھر خاندانوں نے قبضہ جما لیا جو ملک کی زیادہ تر زمین اور صنعتی دولت پر پہلے سے قابض تھے۔

بعد میں عالمی بینک کے صدر رابرٹ مکنامارا کے مشیر کی حیثیت سے محبوب الحق نے معاشی نمو کے جھوٹے دیوتا اور زمین پر موجود اس کے کلیسا یعنی منڈی کی قوتوں کی آزادانہ عمل داری پر براہ راست دھاوا بولا۔ انھوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں بھی نمو اکثر عام لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے میں ناکام رہتی ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے یہ دلیل پیش کی کہ جب لوگ کم قوت خرید کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں یا مٹھی بھر لوگوں کے پاس طاقت ہو تو طلب و رسد کی دیو مالائی قوتیں کام نہیں کرتیں۔

اس سے نمٹنے کے لیے وہ نمو کے عمل کو شروع کرنے اور اس کو مساویانہ طور پر لوگوں میں تقسیم کرنے میں ریاست کا بہت اہم کردار سمجھتے تھے۔ ان عمیق خیالات کے ذریعے انھوں نے انسانی ترقی کے ایک نظام کی بنیاد ڈالی اور اس کے ہمراہ ایک بہت بااثر انسانی ترقی کا انڈیکس متعارف کرایا جو جی ڈی پی سے آگے بڑھ کر انسانی بہبود کے دیگر پہلوؤں کو اپنی گرفت میں لیتا ہے جیسے تعلیم، اچھی صحت، سیاسی آزادی، ثقافتی شناخت، ذاتی تحفظ، مقامی آبادی کی شرکت اور ماحولیاتی سلامتی۔

محبوب الحق اپنے زمانے سے بہت آگے کی شخصیت تھے۔ اْن کی فصاحت و بلاغت عالمی سطح پر گونجتی رہی۔ وہ ترقی پذیر دنیا کے ترجمان بن کر ابھرے اور خوشحال اقوام کا ضمیر جگانے کی مسلسل کوشش کرتے رہے۔ آج جب کہ ان کی بے وقت موت کو ایک چوتھائی صدی گزر چکی ہے، ان کا محبوب وطن اب بھی غربت اور شدید عدم مساوات میں جکڑا ہوا ہے۔ہمارے اکثر ہمسایہ ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکے ہیں، ہم اب تک ایک ہزار ڈالر سے کچھ اوپر فی کس آمدنی میں پھنسے ہوئے ہیں، اور ملک کا ہر تیسرا فرد تین ڈالر یومیہ پر گزارہ کر رہا ہے۔ ہماری تقریباً نصف آبادی ناخواندہ ہے اور ہماری خواتین کی ایک چوتھائی سے بھی کم تعداد ملازمت کرتی ہے۔

محبوب الحق کے زمانے کی طرح، اب بھی ہماری ترقی کے انجن اور ہماری سرکاری پالیسیاں ہی قصور وار ہیں۔ ہمارے سیاست دان ہر قیمت پر ترقی کے جنون میں مبتلا ہیں لیکن اسے حاصل کرنے کے لیے بار بار غلط اقداماتکرتے ہیں۔ بلند پیداوار اور جدت کے ذریعے طویل مدتی ترقی کو راستہ دینے والی اصلاحات کی طویل اور پْر پیچ راہ کے برخلاف سست اور قلیل مدتی محرک لامحالہ تکلیف دہ تباہیوں کا باعث بنتا ہے۔ سیاسی چکروں سے وابستہ جلد بازی اور سیاسی جماعتوں کی معاشی ٹیموں میں تیاری اور تخیل کی شدید کمی اس کی ذمے دار ہے۔

پاکستان آج ایک ایسا ملک ہے جو کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کے بغیر جسے وہ پورا نہیں کرسکتا، بمشکل 4سے5 فیصد نمو حاصل کر سکتا ہے۔ اس کا طرزِ نمو کھپت پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، جو مجموعی پیداوار کا کم و بیش95 فیصد ہے، جب کہ سرمایہ کاری اور برآمدات بالترتیب صرف 15 اور 10 فیصد بنتی ہیں۔ نتیجتاً، 1970ء اور 1980کے عشروں میں بلند بچت والے ایشین ٹائیگرز کے پیدا کردہ زرِ فاضل (surpluses) کے بالکل برعکس، ملک ایک دائمی کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ چلارہا ہے۔

یہ ہمیں غیر ملکی بچتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ بدقسمتی سے، دیگر ابھرتی ہوئی منڈیوں کے برعکس، ہماری کمپنیاں یا کیپٹل مارکیٹس بیرون ملک سے کوئی معنی خیز سرمایہ کاری بمشکل ہی حاصل کرپاتی ہیں، اور ہماری اپنی کمپنیاں اور بینک بیرونی ذرایع سے قرض نہیں لیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ، جب تک دنیا بھرپور امداد نہیں دیتی جیسا کہ مشرف دور میں دی گئی تھی ، حکومت کے پاس ہمارے کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو پورا کرنے کا واحد طریقہ بیرون ملک سے قرضہ لینا ہے جس سے غیرملکی قرضے کا حجم مزید بڑھ جاتا ہے۔

اگر یہ قرضے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیے جاتے جن سے معیشت کی پیداواری استعداد بڑھتی یا برآمدات میں اضافہ ہوتا اور زر مبادلہ آتا تو یہ صحت مندانہ رجحان ہوتا۔ بدقسمتی سے ہمارے معاملے میں ان قرضوں کو ہوشربا اخراجات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، جس کی بنا پر ہمیں اپنے پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لیے مستقل نئے قرضوں کی ضرورت رہتی ہے۔یہ کھیل غیر معینہ مدت تک نہیں کھیلا جاسکتا ہے اور ہم اس کی آخری حد کو چھو چکے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم بار بار آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

اس لیے آج ہم محبوب الحق کے تخیل سے کوسوں دور ہیں۔ آبادی میں بے لگام اضافے کی وجہ سے پاکستان دنیا میںبلحاظِ آبادی پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے۔ اس اعتبار سے اِسے اقوام عالم کی ایک بڑی طاقت ہونا چاہیے، لیکن پھر بھی ہم تجاہلِ عارفانہ اور تغافلِ رندانہ کا پیکر بن چکے ہیں۔ہماری کمپنیاں ایسا کچھ نہیں بناتیں جو دوسرے ممالک کی ضرورت ہو، یہ ہماری جغرافیائی سرحدوں میں مقید رہنے پر اکتفا کر رہی ہیں، جہاں انھیں حکومت کی فراخدلانہ سبسڈیز اور مسابقتی قید و بند سے تحفظ ملا ہوا ہے۔

ہمارا میڈیا صرف ملکی خبروں تک محدود ہے اور وہ بھی بیشتر سنسنی کی حامل۔ لہٰذا، پھر یہ امر باعث حیرت نہیں کہ دنیا بھر میں اپنے مقام اور دوست بنانے کی خواہشات کے حوالے سے ہمیں شناخت کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ ملکی سطح پر ہمارا عمرانی معاہدہ شکست و ریخت کا شکار ہے۔ ہمارے لوگ اپنی حکومت پر اتنا اعتماد نہیں کرتے کہ صحت ، تعلیم، سڑکوں اورتحفظ جیسی عوامی خدمات کے حصول کے لیے بدلے میں ٹیکس ادا کریں۔

تو پھر ہم اس قید سے آزاد کیسے ہوسکتے ہیں؟ نصف صدی کے عالمی تجربے نے ہمیں سکھایا ہے کہ پائیدار نمو کے لیے چند ضروری شرائط ہیں۔ ان میں معاشی استحکام کی ضمانت دینے والا مالیاتی اور زری نظم و ضبط ، حکومت میں درست تعداد میں بھرتیاں تاکہ نہ وہ ضرورت سے زیادہ بڑی ہو نہ ضرورت سے بہت چھوٹی ہو، نمو کے اہم انجن کی حیثیت سے سرمایہ کاری اور اشیا سازی پر انحصار، اصلاح پسند حکومتوں کی حمایت، کاروبار اور اختراع کی حوصلہ افزائی اور اپنے جغرافیائی محل وقوع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا شامل ہے۔

یہ بنیادی چیزیں درست کرنا ضروری ہے لیکن ان کا کوئی فوری حل موجود نہیں جو آسانی سے درآمد کیا جاسکے۔ مقامی حقائق کو ذہن نشین رکھنا چاہیے۔ پائیدار نمو اور غربت میں کمی کی جدوجہد میں ثابت قدمی، نئے تجربات اور غلطیوں سے سیکھنے کا کوئی متبادل نہیں۔ چین کی ترقی کی کہانی ان خوبیوں کو اجاگر کرتی ہے۔ مزید یہ کہ چین کے تمام رہنماؤں اور اہم معاشی منتظمین کو مختلف صوبوں میں سالوں نچلی سطح پر تربیت حاصل کرنی پڑتی ہے تبھی وہ اقتدار کی سیڑھیاں چڑھ سکتے ہیں۔

اس قسم کی ذہنی کیفیت کے بغیر ہم کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ میں آیندہ کی تحریروں میں ان میں سے کچھ خیالات کا اظہار کروں گا۔اس تحریر کا اختتام میں فیض کے ایک شعر پر کروں گا جو محبوب الحق کو بہت پسند تھا۔ اس شعر میں زمانے کی وہ روح بول رہی ہے جسے مستقبل کے سفر میں ہماری رہنمائی کرنی چاہیے۔

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔