معیشت بہتری کی جانب گامزن

کچھ عرصہ پہلے تک جو نا امیدی کے گہرے بادل چھائے ہوئے تھے ، وہ اب چھٹ رہے ہیں


Editorial August 12, 2022
کچھ عرصہ پہلے تک جو نا امیدی کے گہرے بادل چھائے ہوئے تھے ، وہ اب چھٹ رہے ہیں۔ فوٹو : فائل

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ حکومت کی موثر حکمت عملی اور مشکل مالیاتی فیصلوں سے ملک مشکل معاشی حالات سے نکل گیا ہے، گزشتہ ہفتے کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں بھی نمایاں استحکام ریکارڈ کیا گیا ہے، آیندہ چند ماہ کے دوران مالی صورتحال مزید بہتر ہو گی، جس سے عوام کی مشکلات میں کمی آئے گی۔ ہم نے مشکل مالیاتی فیصلے کیے، جس کے نتیجہ میں ہم اس صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار وزیر خزانہ نے غیر ملکی نشریاتی ادارے سی این بی سی ایشیا کے ساتھ گفتگو کے دوران کیا۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کی جانب سے رواں ماہ کے اختتام تک قرض پروگرام کی بحالی سے میکرو اکنامک استحکام اور ادائیگیوں کا توازن قابو میں آنے کی توقعات کے تناظر میں ڈالر کی قدر میں تنزلی کا عمل جاری ہے۔

ڈالر کی قدر میں مسلسل کمی کی وجہ سے پاکستانی روپیہ مستحکم ہوا ہے، کچھ عرصہ پہلے تک جو نا امیدی کے گہرے بادل چھائے ہوئے تھے ، وہ اب چھٹ رہے ہیں۔ حکومت نے افغانستان کی جانب ڈالرز کی غیر قانونی ترسیل پر قابو پاکر احسن اقدام اٹھایا ہے۔ دراصل کوئی بھی ملک ترقی اس وقت کرتا ہے جب اس کی گراس نیشنل پراڈکٹس (جی این پی) میں اضافہ ہوتا ہے، جب درآمدات روکی جاتی ہیں تو مقامی طور پر بنائی ہوئی اشیاء کی فروخت بڑھ جاتی ہے، جس سے ملکی صنعت ترقی کرتی ہے اور پھر صنعتکار اپنی پیداوار میں اضافہ کرتے ہیں اور کاروبار کو وسعت دی جاتی ہے۔

پیداوار بڑھانے اور کاروبار میں وسعت پیدا کرنے کے لیے صنعتکاروں کو افرادی قوت کی ضرورت پیش آتی ہے ، جس کے لیے افسران اور اہلکار رکھے جاتے ہیں جس سے روزگار بڑھتا ہے۔ فی الحقیقت دنیا میں تمام ایسے ممالک ترقی کرتے ہیں جن کی جی این پی میں اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے ماہرِین معاشیات یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار جی ڈی پی سے بڑھ کر جی این پی پر ہوا کرتا ہے۔

ایک محبِ وطن پاکستانی ہمیشہ یہ چاہے گا کہ پاکستان ترقی کرے اور جو شخص ملک کے لیے کام کرتا ہو، اس کی تعریف کی جائے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے ہی ملک کو بد نام کرتے ہیں، ایسے لوگ تصویر کا وہ رخ بیان کرتے ہیں جو حقائق سے کوسوں دور ہوتا ہے۔ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے بہترین معاشی فیصلے کرنا شروع کر دیے ہیں، جس کے مثبت اثرات کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ حکومت نے آتے ہی لگژری اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد کردی تھی جس سے زر ِمبادلہ اور تجارتی خسارے پر قابو پانے میں مدد ملی۔

آج ڈالر اتنا مہنگا ہونے کی ایک وجہ فری فلوٹ ایکسچینج کی قانون سازی ہے جو سابق حکومت کے دور میں ہوئی تھی،اس نے جوئے اور سٹے کے کاروبار کو فروغ دیا۔ پاکستان میں فری فلوٹ ایکسچینج ڈالر کی قیمت میں کمی بیشی کا سبب بنتا ہے۔ اس پر حکومت کا کسی بھی قسم کا کنٹرول نہیں ہوتا۔ یہ مارکیٹ پلئرز کے رحم وکرم ہوتا ہے ، کرنسی ڈیلرز اور دولت مند لوگ ڈالر خرید کر اسٹاک کرلیتے ہیں اور پھر اس کی قیمت بڑھانے کے لیے معیشت کے خلاف افواہیں اور خبریں پھیلانا شروع کردیتے ہیں۔پھر غیر یقینی صورتحال پیدا ہوتی اور سرمایہ کار گھبرا کر روپے کے بجائے ڈالر خریدنے لگے۔ ان کی سرمایہ کاری سے ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہونے لگا، اس طرح روپے کی قدر میں کمی آنے لگی۔

معاشیات کے بنیادی اصولوں سے لا علمی کے باوجود معیشت پر لیکچر دینا ہماری قوم کا ہی خاصہ ہے مگر اس سے بھی زیادہ خطرناک امر ہماری قوم کا معیشت کے بجائے انٹرنیشنل قوتوں سے پنجہ آزمائی کرنے میں انٹرسٹ ہے۔ ہمیں وہ ملک اچھے لگتے ہیں جن کے حکمران مغرب مخالف ہوں، چاہے وہ اپنی ہی عوام کا خون کیوں نہ چوس رہے ہوں۔

حتیٰ کہ ہمارے بعض لوگ ہٹلر کی توصیف کرتے نظر آتے ہیں۔ عوام کے ذہنوں میں یہ بات اتاری جاتی رہی ہے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے کہ ہمارے تمام مسائل کی ذمے دار بیرونی قوتیں ہیں۔ وہ پاکستان کو کمزور کرنا چاہتی ہیں، اس لیے ہمیں ان بیرونی قوتوں سے مقابلہ کرنا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر ہماری خارجہ پالیسی انڈیپنڈنٹ ہو جائے تو ہمارے ملک کی معیشت بھی راتوں رات ٹھیک ہو جائے گی ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرات اس قسم کا فلسفہ پیش کررہے ہیں، ان کا اپنا رہن سہن مغربی روایات کے مطابق ہے۔

ان کے بچے اور رشتے دار مغربی ممالک میں رہتے ہیں اور وہاں کے نیشلٹی ہولڈر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں امریکا اور یورپ کے خلاف باتیں کرنے والے کسی بھی سیاستدان یا ریاستی عہدیدار کے بچے یا خاندان چین، روس، شمالی کوریا وغیرہ میں آباد نہیں ہیں، سب امریکا اور یورپ بھاگتے ہیں۔

ہم ایک غریب ملک ہیں ، جو ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں وہ کسی بھی حالت میں غریب نہیں ہوتے۔ ان کا گزارہ تیل بیچ بیچ کر چلتا رہتا ہے، مگر ہمارے پاس ایسے کوئی وسائل نہیں ہیں۔ ہمارا مسئلہ کمائی نہ ہونا ہے اور اس کی وجہ ہماری اپنی سستی ہے۔ ہم اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ایسے اسباب پیدا نہیں کرسکے کہ جن سے کمائی ہو سکے۔ ہمیں اپنی کمائی بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور یہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ہم دیگر کو کوسنے کے بجائے اپنے آپ کو بہتر کرنے کی کوشش کریں۔

ملکی معیشت میں زراعت کے اہم کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کسانوں میں باردانہ کی غیرمنصفانہ تقسیم اور مڈل مین کی چیرہ دستیوں سے کسان برادری مناسب منافع کمانے سے محروم رہی ہے۔ زراعت کو ترقی دینے کے لیے جہاں جدید ٹیکنالوجی سے بھر پور استفادہ کی ضرورت ہے وہاں سستی اور معیاری کھاد، فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ یقینی بنانے کے لیے معیاری بیج اور ضرورت کے وقت فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے پانی کی دستیابی ضروری ہے۔ ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جن کے باعث کسان برادری دربدر ٹھوکریں کھانے سے محفوظ رہ سکے۔

پاکستانی معیشت کئی دہائیوں سے قرضوں کے بوجھ تلے سسکتی چلی آرہی ہے۔ معیشت کی بہتری کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے گئے تو درپیش مسائل مزید گمبھیر صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ معاشی ترقی جہاں ملک سے کرپشن کے تدارک اور ملکی اور غیر ملکی سودی قرضوں سے نجات سے مشروط ہے، وہاں زرعی اور صنعتی شعبوں کو مزید فعال بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے، ضروری اقدامات میں خود انحصاری کا راستہ اختیار کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

قومی معیشت میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کا حصہ نمایاں ہے ، یہ صنعت گزشتہ کئی برسوں سے کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ کمی کے باعث زبوں حالی کا شکار چلی آ رہی ہے۔ حالات یہ ہیں کہ جب کپاس دستیاب تھی، تب تو توانائی کا بحران درد سر بنا رہا اب ٹیکسٹائل کے شعبے میں توانائی کا مسئلہ نسبتاًحل ہوا ہے ، تو کپاس دستیاب نہیں۔ یہ افسوس ناک صورت حال فوری توجہ طلب ہے۔ یہ تحقیق ہونا ضروری ہے کہ کپاس میں خود کفیل پاکستان اب ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے کپاس درآمد کرنے پر کیوں مجبور ہے؟ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی طرح ملک میں چھوٹی صنعتوں کو فروغ دینا بھی اشد ضروری ہے۔

اس اقدام سے ایک دو سال میں بے روز گاری میں کمی ہو سکتی ہے۔ حکومتوں کی طرف سے مفاد عامہ کے نام پر سہانے خوابوں کی تکمیل کے لیے جاذب نظر ناموں پر مبنی درجنوں منصوبوں کے اجراء کی خبریں اکثر نظر نواز ہوتی رہتی ہیں مگر بظاہر ان منصوبوں کے ثمرات عوام تک پہنچتے نظر نہیں آ رہے، ایسا ہونا ماضی کے حکمرانوں کی ہی بد تدبیری کا نتیجہ ہے ، جس سے مفاد پرست طبقے، جن میں مصنوعی مہنگائی اور اشیائے ضرورت کی ذخیرہ اندوزی کرنے والے عناصر سر فہرست ہیں، بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پس پردہ یہ چاپلوس طبقہ کتنا خطر ناک ہے، یہی وہ طبقہ ہے جو مفاد عامہ کے منصوبوں میں حکومت کی طرف سے ملنے والی سبسڈی سے ، سب سے زیادہ استفادہ کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔

سیاسی استحکام ، مضبوط اور پائیدار معیشت کی بنیاد ہے، کسی بھی ملک کی معیشت میں اس وقت تک استحکام نہیں آسکتا جب تک ملک میں سیاسی و آئینی نظام مضبوط بنیاد پر قائم نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی معیشت کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اس نظریے سے اگر ہم پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات دیکھیں تو معاشی بدحالی کی سب سے بڑی وجہ بتدریج بڑھتا ہوا سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورت حال ہے' بڑھتی ہوئی مہنگائی، ڈالر کی مصنوعی اونچی اڑان، افواہوں کے بازار کی وجہ سے ملک میں معاشی صورت حال خطرناک شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔

موجودہ صورت حال اِس بات کی متقاضی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی مفادات اور انا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی معیشت پر سر جوڑ کر بیٹھیں اور ملکی مفادات کے تحفظ کے لیے طویل المیعاد حکمت عملی طے کرکے ہمیں اس گھمبیر مسائل سے نجات دلائے، تا کہ ملک میں جاری یہ سیاسی افراتفری ختم ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔