صحت مند زندگی کے سادہ اصول

فطری طرز عمل اختیار کر کے بیماریوں سے نجات ممکن ہے


فطری طرز عمل اختیار کر کے بیماریوں سے نجات ممکن ہے۔ فوٹو: فائل

ترقی کا جنون اور وقت کی تیز رفتاری دو ایسے عوامل ہیں جنہوں نے انسان کو مادی لحاظ سے تو ہو سکتا ہے بہت نوازا ہو لیکن جسمانی اور روحانی حوالے سے لا تعداد مسائل سے متعارف بھی کروایا ہے۔

فی زمانہ ہر انسان کی زبان پر ''میرے پاس وقت نہیں ہے'' کے الفاظ وقت کی رفتار کے سامنے اپنے بے بسی کا اعتراف ہیں۔ وقت ایک ایسی سچائی ہے جس سے راہِ فرار ممکن ہی نہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جو آدمی روزانہ اپنے لیے تھوڑا سا وقت نہیں نکال پاتا ، اسے بہت سا وقت نکالنا پڑ جاتا ہے۔

جب وقت اپنا آپ دکھاتا ہے تو وہی 'مصروف آدمی' ہفتہ عشرہ صاحب فراش رہنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ بہترین اور صحت مندانہ طرزِ عمل یہ ہے کہ 24گھنٹے کی روزمرہ زندگی کو تین برابر حصوں میں تقسیم کر کے آٹھ گھنٹے سویا جائے، آٹھ گھنٹے کام کیا جائے اور بقیہ آٹھ گھنٹوں کو تعمیری اور فلاحی سرگرمیوں میں صرف کیا جائے۔

تن آسانی سے نجات

تن آسانی سے بچا جائے کیونکہ تن آسانی امراض کا باعث بنتی ہے۔ تن درستی کے لیے کوشاں رہا جائے کیونکہ تن درستی آسودگی لاتی ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: ''آسودہ رہنے کے دو ہی راستے ہیں ،جو پسند ہے اسے حاصل کر لو یا جو میسر ہے اسے پسند کر لو'' لیکن آج کا انسان اپنی پسند کے حصول میں اس قدر سرگرداں ہے کہ جو حاصل ہے اس سے بھی لا پروا اور لاتعلق سا دکھائی دیتا ہے۔ صحت دنیا کی سب سے بڑی دولت اور نعمتِ عظمیٰ ہے۔

سالہا سال قبل تنگدستی اور کسمپرسی کے عالم میں رہنے والے عظیم شاعر اسداللہ غالب بھی مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ تنگ دستی بھی ہو اگر غالب... تن درستی ہزار نعمت ہے۔ کیونکہ اگر انسان صحت مند ہو تو ''ایک در بند، سو در کھلے'' کے مترادف زندہ رہنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار کر اپنے لیے اور اپنے اہل و عیال کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کی سبیل بنا ہی لیتا ہے۔اور خدانخواستہ انسان بیمار ہو تو دنیا کی ہر نعمت دے کر ساری دولت لٹا کر بھی صحت کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔

معدہ کی درستی

انسانی صحت اور تن درستی کا دارو مدار معدہ کی درستی پر ہوتا ہے۔ معدے کو باورچی کا درجہ حاصل ہے۔ جس طرح گھر بھر کے افراد کو انواع و اقسام کے کھانے باورچی مہیا کرتا ہے، بالکل اسی طرح پورے بدنِ انسانی کی تمام تر غذائی ضروریات کا اہتمام اور خیال بھی معدہ رکھتا ہے۔ ہم جو کچھ بھی کھاتے یا پیتے ہیں اسے معدہ ہی دیگر جسمانی اعضاء تک پہنچاتا ہے۔ اسی لیے مسیحائے انسانیت حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: ''معدہ بیماری کا گھر ہے اور پرہیز ہر دوا کی بنیاد ہے اور ہر جسم کو وہی کچھ دو جس کا وہ عادی ہے۔''

انسانی جسم کی تعمیر ان غذائی اجزا سے ہوتی ہے جو ہم روز مرہ کھاتے ہیں۔کھائی جانے والی غذا پیغامِ شفا بھی ہوتی ہے اور باعثِ امراض بھی۔ یہی وجہ ہے کہ طبی ماہرین غذا کے متوازن اور متناسب ہونے پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں،کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر معدہ درست ہوگا تو تمام جسم بھی درست رہے گا۔ سمجھ دار معالجین بھی معدے کی درست کارکردگی پر زور دیتے ہیں۔

جسمانی عناصر میں اعتدال

متوازن غذائی اجزا میں وٹامنز، پروٹینز، چکنائیاں اور نشاستہ وغیرہ شامل ہیں۔مذکورہ اجزا کی کمی یا زیادتی ہی بیماریوں کا سبب بن کر بدنِ انسانی کے لیے مسائل پیدا کرتی ہے۔ مرض دراصل کسی ایک عضو کی کیفیت میں تبدیلی کا نام نہیں ہوتا بلکہ یہ کئی اعضاء کی کارکردگی میں نقص واقع ہو نے کی نشان دہی ہو تی ہے۔ علاوہ ازیں بیماری کا باعث بننے والے عناصر بھی انسانی جسم کا ضروری حصہ بنا دیے گئے ہیں۔

موجودہ دور کے سب سے خطرناک امراض ذیابطیس، بلڈ پریشر، یوریا،کولیسٹرول، امراضِ قلب، امراضِ گردہ، گھنٹیا، نقرس اور ہیپاٹائیٹس وغیرہ کہیں باہر سے حملہ آور نہیں ہو تے ہیں بلکہ ان تمام امراض کی وجہ بننے والے عناصر کی ایک مخصوص مقدار کا جسم میں پایا جانا صحت کے لیے لازمی ہو تا ہے۔ مثال کے طور پر ایک صحت مند انسانی جسم میں شوگر کی نارمل مقدار کا پایا جانا ماہرین کے نزدیک صحت مندی کی علامت ہے۔

جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہی مذکورہ مقدار جب ضرورت سے زیادہ بڑھتی ہے یا اس کی مقدار میں کمی واقع ہوتی ہے تو خطرناک مرض کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اسی طرح طبی ماہرین کے مطابق بلڈ پریشر اور قلبی امراض کا سبب بننے والے ماد ے کو لیسٹرول کی مناسب مقدار 170ملی گرام سے 200ملی گرام تک انسانی جسم کی لازمی ضرورت خیال کی جاتی ہے۔

یہاں ایک اہم نکتہ قابلِ غور ہے کہ مذکورہ مقدار وں میں کمی یا زیادتی پیدا ہو نے کی ہر دو صورتوں میں مرض تصور کیا جاتا ہے جیسا کہ ماہرین جانتے ہیں کہ یورک ایسڈ کی مناسب مقدار میں زیادتی تو بہ آسانی کنٹرول کی جا سکتی ہے مگر یورک ایسڈ کی کمی کی صورت میں جو جسمانی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں انہیں دور کرنا کچھ آسان نہیں ہوتا۔ یوں مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسانی جسم سے جڑے تمام عوارض کی افزائش یا روک تھام معدہ ہی کرتا ہے۔

ناقص غذا سے اجتناب

معدے کے امراض میں گیس، تبخیر، بدہضمی، تیزابیت، السر (معدے کی سوزش) معدے کا درد اور بھوک نہ لگنا وغیرہ شامل ہیں۔ فی زمانہ کوئی خوش نصیب انسان ہی ہوگا جو ان امراض سے محفوظ ہوگا۔ گیس اور تیزابیت کی علامات میں کھٹی ڈکاریں، معدے اور خوراک کی نالی میں جلن کا احساس، ہر وقت معدہ بھرا بھرا رہنا اور بھوک میں کمی واقع ہونا شامل ہے۔

بسا اوقات معدے کی خرابی درد کی صورت میں بھی ظاہر ہونے لگتی ہے۔ معدے کے منہ پر ہلکا ہلکا سا درد اور چبھن ورمِ معدہ کی جانب اشار ہ کرتے ہیںجو کہ بے توجہی اور لاپرواہی برتنے پر بعد ازاں معدے کا زخم بن کر شدید السر کا روپ دھار لیتے ہیں۔ جب معدہ خراب ہوتا ہے تو انتڑیاں،پتہ، تلی، گردے دل، جگر، دماغ اور اعصاب وغیرہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔

معدہ کھائی جانے والی خوراک کو ہضم کر کے غذائی اجزا تمام اعضا تک پہنجانے کا پابند ہے اور پورے انسانی جسم کی خوراک اور دیکھ بھال کی ذمہ داری معدہ کی ہے۔ معدہ کے تمام تر امراض کی وجہ اور سبب صرف اور صرف غیر متوازن خوراک اور بے اعتدالی ہے۔ بدنِ انسانی میں رونما ہونے والے تمام امراض بھی معدہ ہی سے پیدا ہوکر دیگر اعضا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔

متواتر ناقص اور غیر متوازن و غیر معیاری غذا کے استعمال سے بیماریوں کے خلاف انسانی جسم کی حفاظت کرنے والا ہتھیار یعنی ''قوتِ مدافعت'' کمزور ہو جاتی ہے۔ جب کسی بدن کی دفاعی لائن (قوتِ مدافعت) کمزور پڑتی ہے تو دشمن (امراض) حملہ آور ہوکر اس کے اثاثے (صحت) تباہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ایڈز جیسا موذی مرض قوتِ مدافعت کی کمزوری کے نتیجے میں ہی رونما ہوتا ہے۔ حاصلِ موضوع یہ ہے کہ معدہ کی درستی پر دھیان دے کر ہم دیرپا صحت مندی، جوانی اور خوبصورتی کا حصول ممکن بنا سکتے ہیں۔

یہاں ہم معدے کی درستی کے حوالے سے چند معروضات تحریر کیے دیتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے ان پر عمل پیرا ہو کر آپ طویل العمری، پائیدار صحت، خوبصورتی اور جوانی سے لطف اٹھانے والے بن سکتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر آپ معدہ کے السر میں گرفتار ہیں تو درج ذیل گھریلو طبی ترکیب اپنا کر اس سے نجات حاصل کرسکتے ہیں: ہلدی50 گرام، سونف 50 گرام اورملٹھی 50گرام کا سفوف بنا کر صبح و شام چائے والا چمچ نہار منہ پانی کے ساتھ کھا لیا کریں۔

چند ایام کے استعمال سے ہی افاقہ ہونے لگے گا۔ اگر آپ گیس، بدہضمی اور اپھارہ کے مرض میں مبتلا ہیں تو زیرہ سفید 50 گرام، زنجبیل50 گرام، ہلدی50 گرام، سونف 50 گرام اور ملٹھی 50 گرام کا سفوف بنا کر نصف چمچ بعد از غذا پانی کے ساتھ استعمال کریں۔ چند روزہ استعمال سے ہی مرض سے چھٹکارا حاصل ہوگا۔

ایسے افراد جو قبض کی وجہ سے پریشان رہتے ہوں وہ سنامکی50 گرام، سونف50 گرام اور مصری100 گرام کو پیس کر رات کو سوتے وقت ایک چمچ چائے والا پانی کے ساتھ کھا لیا کریں۔ قبض کی وجہ سے بڑھا ہوا پیٹ بھی کم ہوگا اور انتڑیوں کے امراض سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ علاوہ ازیں چو عرقہ، عرقِ سونف، عرقِ اجوائن، عرقِ پودینہ، حب کبد نوشادری، جواشِ کمونی، جوارشِ جالینوس،حبِ تنکار وغیرہ جیسی امراضِ معدہ کی مرکب ادویات بہ سہولت مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ دھیان رہے کہ بازار میں موجود بعض ادویات میں خوردنی نمک شامل ہوتا ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ کسی بھی دوا کے استعمال سے پہلے کسی مستند معالج سے مشورہ ضرور کیا جائے، کیونکہ نمک بلڈ پریشر میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔

فطری طرز زندگی

ہمیشہ فطری غذاؤں کا استعمال کریں، طرزِ بود باش اور رہن سہن بھی فطری ہی اپنائیں اور خدانخواستہ جب کبھی بیمار ہو ں تو طریقہ علاج بھی فطری ہی آزمائیںکیونکہ فطری طرز زندگی ہی فطرت کے قریب تر ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ جسمِ انسانی کی پیدائش عین فطرت پر ہوئی ہے اور اس کی پرورش بھی فطرت پر ہی ہونی چاہیے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جب تک انسان نے فطری اصولوں کو اپنائے رکھا وہ ہر دو طرح کی روحانی وجسمانی بیماریوں سے کافی حد تک محفوظ رہا لیکن جب سے انسان کا رہن سہن، خوراک، علاج اور ماحول مصنوعی پن اورغیر فطری انداز کا شکار ہو اہے، انسان روحانی اور جسمانی بیماریوں کی لپیٹ میں آگیا ہے۔

علاوہ ازیں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ دوا اور غذا میں بنیادی اور واضح فرق یہ ہے کہ غذا بدنِ انسانی کی مستقل ضرورت ہے جبکہ دوا کا کام بیماری کو ختم کرکے جسم کو تن درستی فراہم کرنا ہے۔ دوسرے الفاظ میں دوا کو ہم مکینک اور غذا کو پٹرول بھی کہہ سکتے ہیں۔ انسانی جسم کی گاڑی کا ایندھن غذا ہے جس سے بدنِ انسانی مسلسل کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے جبکہ انسانی ڈھانچے کی کارکردگی میں کسی بھی قسم کی خرابی (مرض) پیداہونے کی صورت میں (دوا) مکینک اپنی ذمہ داری نبھاتا ہے لہٰذا دانش مندی کا تقاضا ہے کہ اپنا ایندھن (غذا) صاف ستھرا (متوازن) رکھیں تاکہ ہمارا جسمانی نظام بہتر اور عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتا رہے۔

جس طرح ہم اپنی گاڑی کو ٹھیک کروانے کے بعد توقع کرتے ہیں کہ وہ بغیر تنگ کیے رواں دواں رہے اور ہم مکینک کو مستقل بنیادوں پر اپنے ساتھ گاڑی پر سوار کرنا پسند نہیں کرتے بالکل اسی طرح ہمیں چاہیے کہ بحالتِ مرض دوا کا استعمال کریں اور تن درستی کے بعد ہم اپنی معمول کی غذا کو متوازن رکھیں تاکہ ہم معالجین اور دواؤں کے محتاج نہ رہیں۔

مندرجہ بالا معروضات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ ہم اپنی خوراک میں ردو بدل کر کے خاطر خواہ حد تک بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ چائے، سگریٹ، شراب اور کولا مشروبات سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کریں۔ ایسے افراد جو عادی ہوچکے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ بتدریج ان کے استعمال میں کمی کرتے جائیں۔ علاوہ ازیں چائے، سگریٹ وغیرہ خالی پیٹ تو ہرگز نہ پی جائیں۔ ورزش کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنا لیں بلکہ جس طرح کھانا ،پینا اور سونا ہماری بنیادی ضروریات ہیں اسی طرح ورزش کو بھی اہم سمجھتے ہوئے اپنے معمولات میں شامل کریں۔

رات کو جلدی سونے اور صبح جلد اٹھنے کی عادت بنائیں۔ایسے افراد جو رات کو کام اور ملازمت کرنے پر مجبور ہیں انہیں چاہیے کہ وہ دن کے وقت مسلسل چھ سے آٹھ گھنٹے سوکر اپنی نیند پوری کریں۔ کھانا دن میں دو بار کھانے کی عادت بنا ئیں، تھوڑے تھوڑے وقفوں سے کھانا معدہ کی خرابی کا باعث بنتا ہے لہٰذا پھل وغیرہ بھی کھانے کی میز پر ہی کھا لیے جائیں تو صحت کے لیے بہت مفید ہو تا ہے۔ نہانے کے فوراً بعد پانی ہرگز نہ پیا جائے۔اسی طرح پانی پی کر فوری نہانا بھی غلط ہے۔ تیز مصالحہ جات، تلی اور بھنی ہوئی غذاؤں کے استعمال سے بھی احتراز برتا جائے۔ کبھی کبھار چٹخارہ اور چسکارہ لے لینے میں کوئی حرج نہیں۔

زیادہ غذائیت والی خوراک کا استعمال

سبزیاں،دودھ، دہی، پھل ،گوشت، دالیں اور اناج کو حدِ اعتدال میں رہ کر استعمال کریں۔ کچی سبزیاں یا پھر سبزیوں کو ابال کر کھانے سے بھرپور غذائیت حاصل ہوتی ہے۔اسی طرح پھلوں کو چھلکے سمیت دھو کر استعمال کریں۔ چکنائی کی مخصوص مقدار جسم کے لیے ضروری ہے چکنائی کو مکمل طور پر ترک کر دینا اچھا نہیں ہوتا۔لہٰذا چکنائیوں میں دیسی گھی بہترین غذا ہے لیکن دھیان رہے کہ یہ سیر شدہ چکنائی ہے اس کی زیادتی مضرت رساں ہو سکتی ہے۔تاہم گھی کی نسبت مکھن کا استعمال قدرے مفید ہوتا ہے۔

ماہرین کی ایک جماعت سفید کھانڈ کو سفید زہر سے تعبیر کرتی ہے لہٰذا جس قدر ممکن ہو سکے اس سے بچا جائے۔فریز شدہ غذاؤں میںبھی موسمی اثرات پیدا ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔ ممکنہ حد تک فریز ہوئی اشیاء کے استعمال سے بھی پرہیز کیا جانا چاہیے۔اسی طرح یخ ٹھنڈا پانی، ٹھنڈے مشروبات پینے کا رجحان بھی غیر صحت مندانہ اقدام ہے۔ بالخصوص گرما گرم کھانے کے ساتھ ٹھنڈے کاربونیٹیٹد مشروبات کا استعمال معدہ میں گیس، تبخیر، تیزابیت، جلن، قبض اور اپھارہ (پیٹ پھولنا ) جیسے عوارض کا باعث بنتا ہے۔

پانی، نعمت خداوندی

سادہ، صاف اور جراثیم سے پاک پانی خدا وندِ کریم کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کا اصلی حالت میں استعمال ہی صحت کے لیے مفید ہوتا ہے۔ غور کریں اگر پانی میں معدنیاتی، دھاتی اور دیگر اجزا کو شامل کرنا اتنا ضروری تھا تو خالقِ کائنات کے لیے کیا مشکل تھی کہ وہ پانی میں قدرتی طور پر منرلز شامل کردیتا۔ لہٰذا پانی کو پانی سمجھ کر پیا جائے دیگر ضروری عناصر کے لیے متوازن غذا ہی کافی ہوتی ہے۔ یاد رکھیںکہ ضرورت سے زیادہ معدنیاتی اور دھاتی اجزاء کی موجودگی گردے، مثانے اور پتے میں پتھری کا سبب بن سکتی ہے جو بعد ازاںکئی دیگر تکلیف دہ عوارض کو جنم دے کر بدنِ انسانی کو مسائل سے دو چار کر سکتی ہے۔

ذہنی دباؤ سے نجات

رات کو کھانا کھانے کے فورا بعد سونے کی روش بھی بے شمار امراض پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔رات کا کھانا عشا کی نماز سے قبل ہی کھا لیا جائے اور نماز پڑھنے کے بعد سویا جائے۔ نمازِ عشا کی 17 رکعتیں ادا کرتے ہوئے بہترین ورزش ہوجاتی ہے۔ پنجگانہ نماز کی ادائیگی روحانی اور جسمانی لحاظ سے ہمیں آسودگی و بالیدگی پہنچانے کا ایک قدرتی ذریعہ ہے۔ ذہنی دباؤ اور اعصابی تناؤ سے بھی بچنا چاہیے۔ رذیل اخلاق تکبر، غرور،حسد، ہوس،لالچ خود غرضی،انتقام اور بے رحمی کو دل میں کبھی بھی جگہ نہ دیں۔

بالخصوص حسد اور انتقام انسان کو ذہنی طور پر ماؤف کر کے رکھ دیتے ہیں لہٰذا ان سے ممکنہ طور پر بچا جائے۔ اچھے اخلاق تواضع، ایثار، عاجزی، رحم دلی، عفو و در گزر، تحمل برداشت اور قربانی کے جذبات کو پروان چڑھا کر ہم تمام قبیح اور موذی امراض سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔دوسروں کے کام آکر انسان کو ایک گوں نا گوں اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ یہی اطمینان ہی ذہنی آسودگی کا سب سے بڑا سبب بنتا ہے اور آسودگی ہی صحت کا بنیادی راز ہے۔

ہم غذاؤں کے انتخاب میں احتیاط کرکے، روز مرہ معمولات میں اعتدال اپنا کر، اپنے طور و اطوار میں تبدیلی لا کر اور فطری طرزِ زندگی اختیار کر کے 80 فیصد تک امراض کے حملوں اور خطرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اسی طرح وہی روپیہ پیسہ جو ہم بیماری سے پیچھا چھڑانے پر خرچ کرتے ہیں اگر اسے پہلے ہی عمدہ اور معیاری غذا کی خریداری پر صرف کریں تو بیماری کی تکلیف سے بھی بچ جائیں اور اپنی صحت اور کام و کاج کے حرج سے بھی محفوظ رہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔