سانحہ جڑانوالہ

ایسے سانحات سے بچنے کے لیے ہوش وحواس سے کیے گئے فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے


اعظم معراج August 27, 2023
ایسے سانحات سے بچنے کے لیے ہوش وحواس سے کیے گئے فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ فوٹو : انٹرنیٹ

(مضمون نگار سماجی آگاہی کی ایک فکری تحریک کے بانی اور 20کتب کے مصنف ہیں۔ وہ پاکستانی مسیحیوں کو سماج سے جوڑنے، ان کے حقوق اور ملک کی تعمیروترقی اور دفاع میں مسیحی برادری کا کردار اجاگر کرنے کے لیے ایک عرصے سے جدوجہد میں مصروف ہیں)

کیا مسیحیوں کو حکومتی، ریاستی و دانش ور اشرافیہ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ آگ کے دریا سے ہی گزرنا پڑے گا؟ اس سوال کا جواب بہت مشکل ہے، لیکن جب بھی کوئی سانحۂ جڑانوالہ جیسا واقعہ رونما ہوتا ہے تو چند دن اس پر جذباتی ردعمل سامنے آتے ہیں اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے، تو بچپن میں دیکھا گیا

ایک ٹی وی ڈراما یاد آ جاتاہے جس میں ایک انتہائی غریب خاندان کا واحد کفیل بیمار باپ مر جاتاہے۔ چند دن محلے والے کھانا دیتے ہیں۔ مانگ تانگ کر ماں چار بچوں کو روکھی سوکھی کھلاتی ہے۔ پھر بچہ بیمار ہوتا ہے۔ کوئی علاج کے لیے قرضہ یا مدد بھی نہیں کرتا۔ بچہ مرجاتا ہے۔ محلے والے اچھے اچھے کھانے پکا کر لاتے ہیں۔ چند دن اچھے گزرتے ہیں۔ پھر وہی بھوک افلاس کچھ دن بعد ایک اور بچہ بیمار پڑتا ہے۔ یہ سین لڑکپن میں دیکھا تھا آج تک ذہن میں چپکا ہے۔ ماں بیمار بچے کے ساتھ بستر پر بیٹھی ہے۔



سب سے چھوٹا بچہ ماں سے معصومیت سے پوچھتا ہے، ''ماں یہ بھائی کب مرے گا۔'' ماں ڈانٹ کر کہتی ہے،''کالے منہ والے یہ کیا کہہ رہا ہے؟'' بچہ معصومیت سے کہتا ہے،''ماں! بھائی مرے گا تو چار دن اچھا کھانا ملے گا۔'' یہی حال پاکستان کے کم زور طبقات، خواتین، بچوں، بالعموم اقلیتوں اور بالخصوص مسیحیوں اور مظلوم ہندو دلتوں کا ہے۔ جب کوئی مائی مختاراں یا کوئی بھی حوا زادی ظلم کا شکار ہوتی ہے یا کسی رضوانہ کو زہریلی ناگن صفت ذہنی مریضہ ڈستی ہے، تو چار دن میڈیا شور مچاتا ہے۔

حکومتی و ریاستی اداروں کے ذمے داروں کے بیان آتے ہیں،''ایسے گھناؤنے فعل کی اجازت نہیں دی جائے گی۔'' میڈیا اس ایشو کو خوب اچھالتا ہے، لیکن چھوٹے چھوٹے بچوں کو نوکری پر رکھنا، ان سے ظلم وبربریت کا سلوک کرنا، حکومتی و ریاستی اداروں کی اجازت کے بغیرِ جاری رہتا ہے۔ میڈیا خاموش ہوجاتا ہے۔

دوبارہ پھر میڈیا وحکومتی یا سیاسی و ریاستی ادارے تب جاگتے ہیں جب کوئی درندہ صفت کسی فاطمہ رانی کو تڑپا تڑپا کر مار دیتا ہے یا کوئی عندلیبِ کسی کی فرعونیت کا شکار ہوتی ہے، تو پھر چند دن شور مچتا ہے پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ یوں ریاستی کام این جی اوز والے کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ظاہر ہے نہیں کرپاتے۔ چند ایک کو چھوڑ کر باقی وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم کی بدولت یا ردعمل میں جلد ہی مال بٹورنے کے چکر میں لگ جاتے ہیں۔

ہماری 24کروڑ 14لاکھ 90ہزار کی آبادی والی اس ریاست میں تمام کم زور طبقات کا یہی حال ہے، لیکن مذہبی اقلیتوں کے حالات سب سے بدتر ہیں۔ سندھ واسیوں میں سے پسے ہوئے طبقات خصوصاً دلت ہندوؤں کی بچیوں کے ساتھ زور زبردستی یا معاشرتی دباؤ کے نتیجے میں جبری شادیوں اور جبری تبدیلی مذہب جیسے واقعات کا تو میڈیا اور معاشرے کے دیگر طبقات کو علم بھی کم ہی ہوتا ہے۔ ہر کچھ روز بعد کوئی نہ کوئی خودکشی ہوتی ہے، جس پر سوائے تھر کے چند درد دل رکھنے والے ہندو سماج سیوکوں کے علاوہ کسی کی نظر ہی نہیں پڑتی۔

پنجاب میں اقلیتوں میں مسیحی آبادی سب سے زیادہ ہے۔ وہاں آئے دن حساس قوانین کا سہارا لے کر بستیاں جلائی جاتی ہیں۔ خون بہایا جاتا ہے۔

ہاں مسیحیوں کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ انھیں قومی و بین الاقوامی میڈیا کی توجہ مل جاتی ہے، لیکن اس کی قیمت کے طور پر انھیں بستیاں جلوانا پڑتی ہیں۔ کئی بے گناہوں کی جانوں کی قربانی دینی ہوتی ہے۔ وہ چاہے لاہور کے قریب گاؤں مٹہ میں جلائے گئے 1951 میں سات مسیحی کھیت مزدوروں کا واقعہ ہو یا 1967میں گاؤں مارٹن پور پر پڑوسی 14 گاؤں کی چڑھائی کا سانحہ یا پھر اس کے بعد تواتر سے دہرائے جانے والے ایسے ہی بے شمار واقعات، مثلاً 1997 شانتی نگر، 2005 سانگلہ ہل، 2006 لاہور،2008 کراچی2009گوجرہ،2011گوجرانولہ، 2013 جوزف کالونی لاہور، 2014 ملتان،2014 قصور، 2015 لاہور، 2016 لاہور، 2023 جڑانوالہ۔



ایسے سانحات کی ذیلی پیداوار کے طور پر ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جو علاقے کے مسلمان اور باشعور مسیحی مذہبی سیاسی و سماجی شہریوں کی بدولت دب جاتے ہیں۔ ایسے واقعات کے بعد ملک کی اقلیتوں کی جو حالت ہوتی ہے وہ دنیا کا کوئی انسان پاکستان کا مسیحی شہری ہوئے بغیر سمجھ ہی نہیں سکتا۔ مسیحیوں کی اجتماعی نفسیات پر ایسے المیوں کے بعد کے اثرات ناقابل بیان ہیں اور یہ ملک کے لاکھوں شہریوں کو معاشرتی بے گانگی کے مرض میں مبتلا کردیتے ہیں۔

یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ یہ ایک انسانی المیہ بھی ہے یہ صرف ہزاروں سال سے انڈس ویلی میں ذات پات، امتیازی سوچ، سماجی رویوں کی بھینٹ چڑھتے دھرتی واسیوں کی موجودہ قابل فخر مسیحی شناخت رکھنے والے پاکستانی شہری ہی نہیں یہ خواتین، بچے اور سب سے بڑھ کر انسان بھی ہیں۔

یہ ایسے پاکستانی شہری ہیں جو 14 اگست 6ستمبر، 23 مارچ کو پاکستان میں تو کچھ کے خیال میں دنیا دکھاوے کے لیے سبز و سفید ہلالی پرچم اٹھائے خوشی سے نہال ہوتے ہیں، لیکن دنیا بھر میں بغیر کسی معاشرتی دباؤ کے پاکستانی سفارت خانوں میں بھی جمع ہوکر اپنے اجداد کی سرزمین پر قائم ہونے والی اس ریاست کے استحکام کی دعائیں مانگتے ہیں۔ قدرتی وسائل سے مالامال بہترین تزویراتی اہمیت کی حامل ریاست آج ایسے ہی دیگر المیوں کی بدولت فکری، معاشرتی اور معاشی انتشار کا شکار ہے، اگر صرفِ اقلیتوں کے ایسے المیوں پر ہی ہماری دانش ور، ریاستی، سیاسی اور مذہبی اشرافیہ سانحات ہونے کے بعد ردعمل دینے کی بجائے پیشگی سدباب کی کوشش کرے تو ایسے سانحات سے بچا جا سکتا ہے۔

مثلاً دانش ور اشرافیہ میں شامل میڈیا ہی کو لیجیے، جیسے اخبارات میں رپورٹرز کی بیٹس ہوتی ہیں یقیناً چینلز میں بھی ہوتی ہوں گی، اس میں اقلیتی بیٹ کا اضافہ کرلیں اور روزمرہ کے مسائل پر اقلیتوں کی آبادی کے حساب سے انھیں مین اسٹریم پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر جگہ اور وقت دیا جائے تو اقلیتوں کی پاکستانی معاشرے میں موجودگی کا احساس اجاگر ہوگا اور یہ پتا چلے گا کہ ان پانچ فی صد کے قریب لوگوں کے اجداد ہزاروں سال سے یہاں آباد ہیں اور اس سماج کی تاریخی بنت ایسی ہے کہ یہ کبھی بھی مونو ریلجیس سماج نہیں بن سکا ہے اور نہ کبھی بنے گا، کیوںکہ نہ تو یہ سارے ہجرت کرسکتے ہیں نہ ہی یہ سب مذہب تبدیل کریں گے۔ البتہ ایسی کوشش میں یہ معاشرہ ریزہ ریزہ ہو کر فنا کی طرف جاسکتا ہے۔

اس طرزِ پر اگر طویل المیعاد بامقصد منصوبہ بندی سے سندھ کے پس ماندہ ہندوؤں کے نہایت حساس نوعیت کے درپیش مسائل پر مسلسل مکالمہ ہو تو، غربت، جہالت اور ظلم کی چکی میں پسے ہوئے ان دھرتی واسیوں کے دکھوں کا دیگر اہل وطن کو بھی پتا چلے گا۔ تب میڈیا کی بدولت پھر مجبوراً ریاستی وحکومتی اشرافیہ کا دھیان بھی اس طرف ہوگا۔

اسی طرح مسیحی سماج کی باریکیوں اور پاکستانی معاشرے کے اندر درپیش مسائل کی نوعیت میں بہت فرق ہے، جو تفصیلی اور مستقل مکالمے کا متقاضی ہے، جس میں سرفہرست ان کے خلاف حساس قوانین کو بطور ہتھیار استعمال کرنا، الیکٹرول سسٹم /انتخابی نظام پر عوام الناس کا ایک طرف اور سیاسی اشرافیہ کے حواری مسیحیوں کا ایک طرف ہونا (اس معاملے میں تمام اقلیتوں کا مسئلہ ایک ہے)۔

وزارت شماریات اور الیکشن کمیشن کے اعدادوشمار پر مسیحیوں کے شدید تحفظات ہونا، جن کی بنیاد حقائق پر بھی ہے، جن کی بدولت مزید غلط فہمیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ مثلاً وزارتِ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق 1951 کی مردم شماری میں مسیحیوں کی آبادی 432706تھی جو 1961میں 35 فی صد بڑھ کر 583884 ہوگئی 1971میں یہ تعداد 55 فی صد بڑھ کر 907861 ہوگئی۔1981 کی مردم شماری میں یہ تعداد 44 فی صد بڑھ کر 1310426 ہوگئی۔ 1998کی مردم شماری میں یہ تعداد 60 فی صد بڑھ کر 2092902 ہوگئی۔

اس حساب سے مسیحیوں کی آبادی 47 سال میں اوسطاً 48.5 فی صد کے حساب سے بڑھتی رہی۔ اس حساب سے اگر 2008 میں مردم شماری ہوتی تو یہ آبادی 3107959ہوتی۔ اس آبادی کو 2018 میں 4615319 ہونا چاہیے تھا، لیکن پاکستانی تاریخ کی متنازع ترین افراد شماری جو 2008 اور پھر 2018کی بجائے 19سال بعد 2017 میں ہوئی، اس میں مسیحیوں کی تعداد 2642048 دکھائی گئی ہے۔ میرے حساب کتاب میں غلطی ہوسکتی ہے، لیکن مسیحیوں کی آبادی جو 1998میں 2092902 تھی 17سال میں بڑھ کر 2642048 ہوئی جب کہ ہندو آبادی جو 1998میں 2443614 تھی بڑھ کر 4444870 ہوگئی۔



2017 میں وزیر شماریات ایک مسیحی اور قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے شماریات کا سربراہ یا ممبر ایک ہندوپاکستانی تھا۔ اس مسئلے، انتخابی نظام کے معاملے اور دیگر سماجی اور سیاسی مسائل پر میں نے حکومتی اشرافیہ کے کلب کے ہر ممبر کو متوجہ کیا، لیکن ہر طرح کی اشرافیہ پیشگی مسائل پر بات کرنے کی بجائے پاکستان میں اقلیتوں کے لیے مخصوص دنوں کرسمس، ایسٹر، دیوالی، ہولی پر مبارک باد دینے یا پھر سانحات کے انتظار میں ہوتی ہے۔

جب کوئی واقعہ ہوجاتا ہے تو پھر سب سے پہلے میں کا منترا پڑھتے ہوئے سب کود جاتے ہیں۔ حالیہ سانحہ جڑانوالہ کے آثار 16اگست کو صبح سے ہی نظر آرہے تھے اور مسیحی سوشل میڈیا پر شدید نقصان کے خدشات کا اظہار کر رہے تھے، لیکن میڈیا کے لوگوں نے اقلیتوں کے لیے سانحات کے بعد کا جو وقت مقرر کر رکھا ہے وہ ابھی ہوا نہ تھا، لہٰذا ریاست کو پیشگی متنبہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

اسی طرح ہندو سماج کے انتہائی حساس مسائل، جن میں کمسن بچیوں کی تبدیلی مذہب، ہندوؤں کی آبادی کے اعدادوشمار میں ہندوجاتی اور شیڈول کاسٹ پر دونوں گروہوں اور ریاستی وحکومتی اعداد و شمار پر نقطہ نظر میں زمین آسمان کا فرق ہونا، ایوانوں میں نمائندگی کے طریقۂ کار پر ان کے شدید تحفظات، شادی بیاہ کی رجسٹریشن اور دیگر ایسے ہی بے تحاشا مسائل۔ جب تک یہ سب مسائل میڈیا کے ذریعے اجاگر نہیں ہوں گے تو ریاست یا حکومت کے کانوں پر جوں کیسے رینگے گی۔

آخر میں تمام بڑے اسٹیک ہولڈرز یعنی اس ریاست کے تین ستونوں مقننہ، عدلیہ انتظامیہ اور چوتھے ستون میڈیا کے ذمے داروں سے گزارش ہے کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں، سرد جنگ کے گرم محاذ کی بدولت ایک سپرپاور اور اس کے 60 فی صد دنیا پر مشتمل اتحادیوں کی منظم ریاستی سرپرستی میں کی گئی، ہر طرح کی سرمایہ کاری سے بوئی گئی فصل کے اثرات اس دھرتی سے چند این جی اوز کے ملازمین، انگریزی پریس یا کچھ علماء اور غریب پادریوں کی کوشش سے زائل ہوسکتے ہیں تو اس سے بڑا فکری مغالطہ کوئی ہو نہیں سکتا۔

اس کے لیے منظم ریاستی و سیاسی عزم اور مثبت رویوں کے ساتھ صحیح سمت میں یکسو، متحرک، فعال معاشرے کی ضرورت ہوگی جو بظاہر نظر نہیں آتا۔ اول الذکر اسٹیک ہولڈرز یہ بھی دھیان میں رکھیں کہ ایسے سانحات جہاں مسیحیوں کی نسلوں کو ایک نسل درنسل ٹراما میں دھکیلتے ہیں، اس کے ساتھ ایسے واقعات ملکی سلامتی پر بھی انتہائی مضر اثرات مرتب کرتے ہیں۔ پاکستانی ریاست، حکومت اور معاشرے کا ردعمل اس سانحے کے بعد بہت مثبت ہے، لیکن مستقبل میں ایسے سانحات سے بچنے کے لیے بطور قوم جو اقدامات درکار ہیں ان پر انتہائی عرق ریزی اور سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں