آزمائش

عوام کی فریاد اور چیخیں سننے والا کوئی نہیں۔ وہ بے چارے اپنے مسائل کے حل کے سوالات کرتے کرتے تھک چکے ہیں


MJ Gohar September 24, 2023
[email protected]

جب نوشیرواں بادشاہ کا وقت قریب آیا اور وہ نزع کی حالت میں آنے لگا تو اس نے اپنے ولی عہد اور جواں سال بیٹے ہرمز کو اپنے پاس بلایا اور اسے چند نصیحتیں کیں۔

نوشیرواں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اپنے آرام کی فکر میں رعایا سے غافل نہ ہو جانا، اگر تُو اپنا آرام و چین چاہتا ہے اور اپنے رب کو راضی رکھنا چاہتا ہے تو فقیر کے دل کا نگہبان ہو جا، اور اگر تُو صرف اپنا ہی آرام و سکون چاہے گا اور اپنی رعایا کی فکر نہیں کرے گا تو پھر تیرے ملک میں کوئی بھی فرد آرام و چین نہ پا سکے گا۔''

بادشاہ نے اپنے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ '' عقل مندوں کے نزدیک یہ بات پسندیدہ نہیں کہ ایک چرواہا اپنی بھیڑ بکریوں سے غافل ہو کر سو جائے اور کوئی ظالم بھیڑیا مسکین جانوروں کو چیر پھاڑ کر کھا جائے۔ تیرے اوپر لازم ہے کہ تُو محتاجوں، غریبوں، بیواؤں، یتیموں، بے کسوں، بے سہارا مسکینوں اور فقیروں کا احساس اور خیال کیا کر، کیوں کہ ایک بادشاہ اپنی رعایا ہی کی بدولت تخت و تاج کا مالک بنتا ہے، نوشیرواں کے بقول بادشاہ اگر درخت ہے تو اس کی رعیت اس کی جڑ ہے کہ جس پر درخت پھولتا اور پھلتا ہے۔ جب بادشاہ اپنی رعایا کے دلوں کو زخمی کرتا ہے تو گویا وہ خود اپنے ہاتھ سے اپنی ہی جڑیں اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔

نوشیرواں عادل نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اگر تُو چاہتا ہے کہ ملک کے اندر امن و سکون قائم رہے، کوئی ہنگامہ کوئی شورش نہ ہو، کہیں کوئی بغاوت اور احتجاج نہ ہو تو پھر اپنی رعایا کے سکھ چین کا حد درجہ خیال رکھا کر۔ اگر کسی ملک کی رعایا ناداری، محتاجی، لاچاری، بے بسی، غربت، بے روزگاری، بھوک، بیماری اور دیگر روزمرہ مسائل سے تنگ آ چکی ہو تو پھر اس ملک میں خوش حالی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی بادشاہ کا تخت و تاج سلامت رہ سکتا ہے۔

بادشاہ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ بہادروں سے نہ ڈر، لیکن اس سے ضرور خوف کھا جو خدا سے التجائیں کرتا ہے۔ تُو اگر اپنا مفاد چاہتا ہے تو کسانوں پر رعایتیں کر کیوں کہ مزدور جب خوش ہوتا ہے تو وہ کام بھی اپنی استطاعت سے بڑھ کرکرتا ہے اور جو نیکوکار ہیں ان کے ساتھ غیر شائستہ رویہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔

جو بادشاہ اپنے ملک میں خرابی اور نقصان نہیں چاہتا وہ کبھی بھی اپنی رعایا کے ساتھ دل آزاری کا معاملہ نہیں کرتا، کیوں کہ وہ بہ خوبی جانتا ہے کہ اگر اس کی رعایا پریشان حال ہوگی تو اس سے نہ صرف ان کے دلوں میں بادشاہ کے خلاف نفرت پیدا ہوگی بلکہ اس سے ملک کی ترقی و خوش حالی اور استحکام و سلامتی کو بھی نقصان پہنچے گا، جس بادشاہ میں اپنی رعایا کو خوش رکھنے کی خوبی اور صلاحیت نہ ہو اس کا ملک کبھی بھی خوش حال اور آباد نہیں رہ سکتا۔

نوشیرواں عادل بادشاہ نے اپنے بیٹے کو سمجھایا کہ اگر تُو اپنی رعایا کا خیال نہیں رکھے گا تو کسی بھی دن تیری رعایا تیری حکومت کا تختہ الٹ دے گی۔ پھر تیرے پاس سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہ ہوگا۔

حضرت شیخ سعدیؒ کی مذکورہ حکایت کے تناظر میں آپ اپنے ملک کی 75 سالہ تاریخ کا جائزہ لے لیں کہ اس دوران برسر اقتدار آنے والے سیاسی و غیر سیاسی حکمرانوں اور نگراں حکومتوں نے اپنی اپنی حکومتوں کے دوران اس ملک کے عوام کے ساتھ کیا کیا سلوک نہ روا رکھے۔ انھوں نے اپنے اور اپنے بچوں و خاندان کے لیے زندگی گزارنے کے کیا کیا سامان فراہم کیے اور اپنے ملک کے عوام کی زندگیوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔

بعینہ اس ملک خداداد کی ترقی، استحکام اور خوش حالی کے لیے برسر اقتدار حکمران طبقات نے کون سے نمایاں کام کیے اور اس وطن عزیز کو بدحال، معاشی تباہی اور دولخت کرنے کے جرم میں کس نے کتنا حصہ ڈالا اور آج اس ملک کو اس حال تک پہنچانے میں، جہاں دیوالیہ ہونے کے خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں، کون کون ذمے دار اور احتساب کے قابل ہے۔ آج ملک پر قرضوں کا بارگراں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ روپے کی قدر مسلسل گر رہی ہے ۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے لے کر بجلی وگیس کے نرخوں تک تاریخ کی بلندی کو چھو رہے ہیں۔

مہنگائی کا گراف بھی آسمانوں سے باتیں کر رہا ہے۔ نگراں کاکڑ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک ماہ کے دوران تیسری مرتبہ اضافہ کر دیا ہے جس کے نتیجے میں ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ لامحالہ پیداواری لاگت بڑھ گئی اور روزمرہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا جو عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوگئیں، لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول ممکن بنانا جوئے شیر لانے کے برابر ہے نتیجتاً لوگ خودکشی جیسے انتہائی اقدام پر مجبور ہو چکے ہیں۔ بجلی کے بلوں نے نہ صرف عام آدمی بلکہ ملک کے متوسط اور متمول ہر دو طبقات کی چیخیں نکال دی ہیں۔

گزشتہ دنوں ملک گیر سطح پر بجلی کے غیر معمولی طور پر بڑھے ہوئے بلوں کے خلاف احتجاج اور شٹرڈاؤن ہڑتال بھی کی گئی جس میں عوام، تاجر، وکلا، مزدور سب طبقات شامل تھے۔ نگراں حکومت نے وعدہ کیا کہ آئی ایم ایف سے بات کرکے عوام کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دیا جائے گا لیکن اس کا وعدہ نقش بر آب ثابت ہوا۔ اب سردیاں شروع ہونے والی ہیں عوام کو گیس کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلنا پڑے گا۔ گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو جائیں گے۔

عوام کی فریاد اور چیخیں سننے والا کوئی نہیں۔ وہ بے چارے اپنے مسائل کے حل کے سوالات کرتے کرتے تھک چکے ہیں لیکن کسی حکمران کے پاس ان کے سوالوں کا جواب نہیں۔ سیاستدان صرف ووٹ مانگتے ہیں اور مسائل کے حل کے بلند و بانگ دعوے اور وعدے کرکے طفل تسلیاں دیتے ہیں۔ پھر ایوانوں میں پہنچ کر پلٹ کر پوچھتے تک نہیں کہ ان کے ووٹرز کس حال میں ہیں۔

گزشتہ ربع صدی کے دوران بھٹو خاندان اور شریف خاندان ملک پر حکمران رہے انھی دو حکمرانوں کے ادوار میں ملک اس بدحالی کو پہنچا ہے۔ 16ماہ تک پی ڈی ایم میں اتحادی رہے اور اب ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ بدقسمتی یہ کہ اس ملک کو سیاسی و غیر سیاسی حکمرانوں نے زبوں حالی سے دوچار کیا تو انصاف کے ایوانوں نے نظریہ ضرورت کی مہریں بھی لگائیں ، سب نے اپنے اپنے مفادات کو ترجیح دی ملک اور عوام کے مفادات کو پس پشت ڈال دیا۔

آئین و قانون کی حکمرانی کو مذاق بنا دیا گیا، نئے منصف اعلیٰ فائز عیسیٰ کہتے ہیں کہ وہ عدالتی فیصلوں کے نہیں بلکہ آئین و قانون کے تابع ہیں تو پھر ان کا یہ امتحان ہے کہ آئین و قانون کے تحت پاکستان کے عوام کو جو بنیادی حقوق دیے گئے ہیں وہ اس کی فراہمی اور تحفظ کو یقینی بنائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔