مکان ایک نعمت خداوندی

مولانا محمد الیاس گھمن  جمعـء 21 جون 2024
(فوٹو: انٹرنیٹ)

(فوٹو: انٹرنیٹ)

اﷲ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں عزت سے رہنے کے لیے مکان جیسی نعمت عطا فرمائی ہے جس سے تمام گھر والے بہت سے فوائد حاصل کرتے ہیں۔

مکان، اﷲ کا احسان:

قرآن کریم میں اﷲ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم:

’’اور اﷲ تعالیٰ نے تمہارے کے لیے تمہارے گھروں کو سکون کی جگہ بنایا اور تمہارے لیے جانوروں کی کھالوں سے تیار ہونے والے ایسے گھر چمڑے کے خیمے بنائے جو تمہیں سفر میں جاتے وقت اور دوران سفر کہیں پڑاؤ ڈالتے وقت ہلکے پھلکے محسوس ہوتے ہیں اور جانوروں کی اُون، ان کی رُویں اور جانوروں کے بالوں سے گھریلو سامان کی دیرپا چیزیں بنائیں جو ایک مدت تک تمہارے کام آتی رہتی ہیں۔‘‘ (سورۃ النحل)

مکان کو حرام کمائی اور حرام کاموں سے بچائیں:

حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ اﷲ کے نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’مکان کی تعمیر اور استعمال میں حرام کمائی اور حرام کاموں سے بچو کیوں کہ یہی چیزیں اس کی ویرانی کی بنیاد ہیں۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی)

مکان کی بربادی کی دو صورتیں:

امام شرف الدین حسین بن عبداﷲ طیبیؒ حدیث مذکور کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’مکان کی تعمیر میں حرام مال خرچ کرنے سے بچو کیوں کہ ایسے گھر میں دین کی بربادی ہوتی ہے۔ اس کا دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ گھروں میں حرام کاموں سے بچو کیوں کہ یہ چیز گھر کے بابرکت اور روحانی ماحول کو تباہ کر دیتی ہے۔‘‘

مکان سے نکلتے وقت کی اسلامی تعلیمات:

پہلا ادب یہ ہے کہ گھر سے نکلنے سے پہلے دو رکعت نفل نماز پڑھ لی جائے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اے میرے امتیو! جب اپنے گھروں سے نکلنے لگو تو اس سے پہلے دو رکعت نفل نماز پڑھ لیا کرو۔‘‘ (مسند بزار)

دوسرا ادب یہ ہے کہ گھر سے نکلتے وقت یہ دعا مانگنی چاہیے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جب بندہ اپنے گھر سے نکلتے وقت یہ دعا مانگتا ہے: اﷲ کے نام کے ساتھ اپنے گھر سے نکلتا ہوں اﷲ پر بھروسا کرتا ہوں، اﷲ کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جو گناہوں سے میری حفاظت اور نیکی کی طاقت دے سکے۔ تو اس دعا مانگنے والے کو سفر کی تمام پریشانیوں سے نجات دے دی جاتی ہے۔‘‘ (سنن أبی داؤد)

تیسرا ادب یہ ہے کہ گھر سے نکلتے وقت گھر والوں کو سلام کر لیا جائے۔ حضرت قتادہؓ سے مروی ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جب گھر سے کہیں جانے لگو تو گھر والوں کو سلام کر کے جایا کرو۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی)

مکان میں داخل ہوتے وقت کی اسلامی تعلیمات:

پہلا ادب یہ ہے کہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے کھنکار کر یا کوئی ایسی علامت کے ذریعے داخل ہوں جس سے گھر والوں کو آمد کی اطلاع ہو جائے۔ حضرت امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ جب بندہ اپنے گھر داخل ہونے لگے تو بہتر یہ ہے کہ وہ کھنکھار (بہ تکلف کھانس) لے یا قدرے زور سے اپنے پاؤں زمین پر مارے۔

(تفسیر القرآن العظیم المعروف بہ ابن کثیر، تحت سورۃ النور)

دوسرا ادب یہ ہے گھر میں داخل ہوتے وقت گھر والوں کو سلام کریں۔ حضرت قتادہؓ سے مروی ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’گھروں میں داخل ہوتے وقت گھر والوں کو سلام کیا کرو۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی)

تیسرا ادب یہ ہے گھر میں داخل ہو کر دو رکعت نفل نماز پڑھ لی جائے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اے میرے امتیو! سفر سے واپسی پر جب اپنے گھروں میں داخل ہو جاؤ تو باقی کاموں سے پہلے دو رکعت نفل نماز پڑھ لیا کرو۔‘‘ (مسند بزار)

مولانا اشرف علی تھانویؒ نے مکان کے چار درجے ذکر فرمائے ہیں۔ جو بالترتیب درج ذیل ہیں:

مکان بہ صورت رہائش:

مکان رہائش کے قابل ہو، قبرستان کی طرح ویران اور پریشان کن نہ ہو، بل کہ ایسا ہو جس میں آدمی اپنے کنبہ کے ساتھ دھوپ، بارش، گرمی، سردی، اور موسم کے بُرے اثرات سے حفاظت کے ساتھ زندگی گزار سکے۔

مکان بہ صورت آسائش:

اﷲ تعالیٰ نے سہولت عطا فرمائی ہوئی ہو جس کی وجہ سے وہ اپنے قابل رہائش مکان کو آرام و آسائش کے قابل بنانا چاہتا ہے تو مکان کا دوسرا درجہ آسائش کا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مکان کو آرام و راحت کے قابل بنایا جائے۔ مثال کے طور پر مکان کی چھت ٹن کی ہے تو ایسا مکان رہائش کے قابل ضرور ہے لیکن اس میں بارش میں چھت ٹپکتی ہے اور گرمی میں تپتی ہے اس لیے آسائش اور آرام کی غرض سے چھت کو پکا بنا دیا جائے۔ یا پلاسٹر کے ذریعے اس کی دیواروں کو مزید پختہ کر دیا جائے تو اس کی بھی اجازت ہے۔

بلکہ عاجز (مولانا اشرف علی تھانوی) کا خیال ناقص یہ ہے کہ اﷲ نے جسے سہولت عطا کی ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنا اور اہل و عیال کے آرام کا خیال کرتے ہوئے مکان کو قابل آسائش اور پختہ ہی بنائے خواہ مخواہ تکلف سے کام نہ لے کیوں کہ قرآن و حدیث میں اہل ایمان کے اتحاد کو بنیان سے تشبیہ دی ہے جس کا مطلب ہے مضبوط عمارت۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے: المؤمن للمؤمن کالبنیا ن یعنی ایمان والے اپنے اتفاق و اتحاد میں مضبوط عمارت اور مکان کی مانند ہیں۔ تو اس میں ایک اشارہ یہ بھی ملتا ہے کہ مکان پختہ اور مضبوط ہونا چاہیے اور یہ کوئی ناجائز نہیں۔ شرعاً اس کی اجازت ہے کہ مکان قابل آسائش اور مضبوط بنایا جائے۔

مکان بہ صورت آرائش:

اگر کوئی شخص اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ سہولت اور وسعت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مکان کو رہائش اور آسائش سے بڑھ کر آرائش کے قابل بنائے۔ تو مکان کا تیسرا درجہ آرائش ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مکان کو آرام و راحت کے قابل بنانے کے علاوہ مناسب طریقہ پر سجاوٹ کر کے خوب صورت بنا دیا جائے تو اس کی بھی رخصت کے درجے میں اجازت ہے۔ مثلاً ایک شخص نے اپنے رہنے کے قابل مکان تو بنا لیا لیکن اس میں پلاسٹر نہیں کیا، یا پلاسٹر بھی کیا لیکن اس میں رنگ و روغن نہیں کیا تو ایسا مکان اگرچہ قابل رہائش ہے اور اس میں فی الجملہ آسائش و آرام کا بھی انتظام ہے لیکن آرائش اور زیب و زینت کا اہتمام نہیں اس لیے دیکھنے میں ذرا اچھا نہیں لگتا۔

اب اگر کوئی شخص اﷲ کے دیے ہوئے رزقِ حلال سے اپنے دل کو خوش کرنے کے لیے فضول انہماک اور اشتغال کے بغیر فرنیچر وغیرہ کے ذریعے مکان کو مناسب درجہ میں خوب صورت بنا لے تو یہ بھی جائز ہے بل کہ قابل آرائش مکان، قابل آسائش مکان سے بھی بڑی نعمت ہے۔

مکان بہ صورت نمائش:

اگر اس آرائش کا مقصد نمائش اور دکھلاوا ہو تو یہ حرام ہے۔

مکان میں خیر و برکت کیسے آئے؟

گھر کے تمام افراد فرائض و واجبات کی مکمل پابندی کریں۔

اپنے گھر میں تلاوت قرآن کریم، ذکر اﷲ، درود پاک، دعاؤں کی کثرت کریں۔

گھر میں داخل ہوتے وقت اسلامی آداب پر عمل کریں۔

گھر سے نکلتے وقت اسلامی آداب پر عمل کریں۔

گھر کو ہر قسم کی آفات سے محفوظ رکھنے کے لیے صدقات کا اہتمام کریں۔

گھر میں والدین اولاد، بہن بھائی، میاں بیوی، ساس بہو پیار و محبت سے رہیں۔

گھر میں قطع کلامی، قطع تعلقی، نفرت اور لڑائی جھگڑا نہ کریں۔

گھر میں بڑوں کی عزت و احترام اور چھوٹوں سے پیار و شفقت کا ماحول بنائیں۔

گھر سے گناہوں کے تمام اسباب ختم کریں۔

گھر میں شوقیہ طور پر کتّا اور تصویریں نہ رکھیں۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی نعمتوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔