نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے

عالیہ اظہر  جمعـء 21 جون 2024
(فوٹو: فائل)

(فوٹو: فائل)

اﷲ کے بارے میں حسنِ ظن ایمان باﷲ کی بنیاد ہے اس کی رحمت، جود و سخا، اس کی ہیبت، اس کے قادر مطلق ہونے پر یقین ہمارے عقیدے کا لا زمی جز ہے۔ عبد کو معبود سے ہمیشہ بہترین گمان رکھنا چاہیے کہ اﷲ کے بارے میں حسنِ ظن رکھنے والا کبھی مایوس نہیں ہوتا، جب بندہ اﷲ کو دل کے یقین کے ساتھ پکارتا ہے تو اس کا رب اس کی پکار کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا کہ یہ اس ذات ِ باری تعالی کی شان کے خلاف ہے کہ اس کا بندہ بہت مان سے دستِ ِسوال دراز کرے اور وہ عطا نہ کرے۔ وہ تو غنی اور ہر شے پر قدیر ہے! اس کا بندہ جب بھول چوک کر گزرے اور پلٹ کر اس غفور الرحیم کی جانب معافی کی نیّت سے رجوع کرے تو اس کی شانِ کریمی جوش میں کیوں نہ آئے؟ اس کا بندہ اس کی رضا پانے کی طلب میں اعمالِ صالح کے لیے حریص ہو تو وہ کیوں اس کے اجر میں کمی کرے ؟ بات صرف اس سے آس لگانے کی ہے کہ اس کے خزینے تو بھرے پڑے ہیں۔

مفہوم: ’’اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہُوا کرتے ہیں‘‘ (سورۃ یوسف)

ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اﷲ سے اچھی امید رکھنا تقویٰ سے مشروط ہے کہ ایک متّقی انسان کو یقینِ کامل ہوتا ہے کہ اﷲ سے بڑھ کر سچا قول اور کسی کا نہیں، لہذا اس کے کہنے کے مطابق اس سے خیر کی توقع رکھنے والا مراد کو پہنچے گا، ان شاء اﷲ۔ اس کے برعکس فاسق اور منا فق انسان کا دل خطا کاری پر تکرار، ظلم اور نافرمانی کے باعث رحمتِ الہی سے متعلق بدگمان رہتا ہے، گناہوں کی سیاہی اس کے دل کو سخت کر دیتی ہے اور یہی چیز اس کو اﷲ سے دور لے جانے کا سبب بن جاتی۔ بے شک! اس کے اطاعت گزار بندے ہی اس کی بارگاہِ رحمت سے جھولی بھروانے کے امیدوار ہوتے ہیں۔

امام حسن بصریؒ کے الفاظ میں مومن اپنے رب سے حسنِ ظن رکھتا ہے اس لیے نیکی کی تاک میں لگا رہتا ہے اور فاسق بدگمانی رکھنے کے باعث بداعمالیوں میں گھرا رہتا ہے۔ اﷲ تعالی خود بدگمانی رکھنے والوں کے رویے کو منافقت کی علامت قرار دیتے ہوئے ملامت کرتے ہیں۔ اﷲ سے اچھا گمان رکھنا ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہماری امیدوں کا مرکز وہی ہستی ہے جو رحمن بھی ہے اور قہار بھی۔ اگر ہم اخلاص کے ساتھ اس کی راہ پر نکل پڑیں گے، گناہوں سے بخشش کے طلب گار ہوں گے اور نیکی میں سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے تو اس کی رحمت کو ان شاء اﷲ ضرور پا لیں گے کہ ہمارے گناہ آسمانوں اور زمینوں کی حدود تک چھا جائیں تو بھی وہ قادر ہے کہ ہماری گریہ و زاری کو شرف ِ قبولیت سرفراز فرما دے۔

جابر بن عبداﷲ الانصاریؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو ان کے وصال سے تین روز قبل کہتے سنا، مفہوم: ’’تم میں سے کوئی شخص دنیا سے اس حالت میں رخصت نہ ہو الاً یہ کہ وہ اپنے رب سے حسن ظن رکھتا ہو۔‘‘ (صحیح مسلم)

حدیثِ قدسی میں بیان ہُوا ہے کہ اﷲ تعالی فرماتا ہے، مفہوم: ’’میں اپنے بندے کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسا وہ مجھ سے گمان رکھتا ہے۔ میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے، اگر وہ مجھے خلوت میں یاد کرے تو میں اسے خلوت میں یاد کرتا ہوں، جلوت میں کرے تو میں اس سے بہتر مجلس میں اس کا ذکر کرتا ہوں، وہ میری جانب ایک بالشت آگے بڑھے تو میں ایک گز بڑھتا ہوں، وہ میرے پاس چل کر آئے تو میں دوڑ کر اس کی جانب جاتا ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری و مسلم)

جب تک سانسیں باقی ہیں، یہ دل دھڑک رہا ہے، امید اور یقین سے اس کا دامن تھامے رکھنا ہے، اﷲ سے ایسا تعلق قائم ہونا چاہیے، جو سب سے مضبوط ہو، اب یہ تعلق کیسے قائم ہو؟ احادیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔

جب رات اپنے آخری پہر میں داخل ہو جائے، تمام مخلوق نیند کے مزے لے رہی ہو، ایسے میں رب کی رضا کے لیے اپنی نیند کو قربان کرنا، اُس کے حضور گڑگڑانا، آنسو بہانا اور اُس سے معافی مانگنا، ایک ایسا عمل ہے جو اﷲ تعالیٰ کے مقرب بندوں کا ہمیشہ شعار رہا ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنے ان محبوب بندوں کا ذکر قرآن مجید میں کچھ اس طرح کیا ہے، مفہوم: ’’ان کے پہلو اُن کی خواب گاہوں سے جدا رہتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور امید (کی مِلی جُلی کیفیت) سے پکارتے ہیں اور ہمارے عطا کردہ رزق میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ سو کسی کو معلوم نہیں جو آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لیے پوشیدہ رکھی گئی ہے، یہ اُن (اَعمالِ صالحہ) کا بدلہ ہوگا جو وہ کرتے رہے تھے۔‘‘ (السجدہ)

اپنے پہلو کو خواب گاہوں سے جدا رکھنے کے بارے میں مفسرین کرام کے مختلف اقوال ہیں: مشہور قول یہی ہے کہ یہاں نماز تہجد کے لیے پہلو کو خواب گاہ سے علاحدہ کرنا مراد ہے۔ اسی طرح حضور نبی اکرمؐ ﷺ کے ایک فرمان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ حضرت معاذؓ کی روایت ہے کہ حضور اقدسؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’کیا میں تم کو ابوابِ خیر نہ بتاؤں؟ پھر آپؐ نے ابوابِ خیر کو شمار فرمایا: روزہ۔ صدقہ اور درمیان شب میں نماز پڑھنا۔ مذکورہ بالا آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ کا مطلب یہی ہے کہ جو لوگ رات کی تاریکی میں اپنا آرام و سکون چھوڑ کر حق تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، اﷲ کی دی ہوئی چیزوں کو اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اور ان سب عبادتوں کو انجام دیتے وقت اﷲ کی رحمت سے مایوس بھی نہیں ہوتے، تو درحقیقت وہی سچے مسلمان ہیں۔ ان کے لیے اﷲ پاک نے ایسے انعامات تیار فرمائے ہیں جن کا آج تک کسی شخص کو بھی علم نہیں۔

تعلق جب مضبوط ہوجاتا ہے تو دعائیں بھی مقبول ہوتی ہیں:

حضرت عقبہ بن عامرؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ میری امت کا ایک شخص رات کو بیدار ہوتا ہے، وضو اور اس کی پریشانی پر اپنے نفس کو مجبور کرتا ہے اور اس پر (شیطان کی) گرہیں ہوتی ہیں۔ تو جب وضو کے لیے اپنے ہاتھوں کو دھوتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، جب چہرہ دھوتا ہے تو ایک اور گرہ کھل جاتی ہے، جب سرکا مسح کرتا ہے تو ایک اور گرہ کھل جاتی ہے اور جب پیر دھوتا ہے تو (آخری) گرہ بھی کھل جاتی ہے، یہ دیکھ کر اﷲ عز و جل پردہ کی آڑ میں موجود اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے: میرے اس بندے کو دیکھو! اپنے نفس پر زور دے کر وضو کی تکلیف برداشت کر رہا ہے اور مجھ سے کچھ سوال کر رہا ہے، لہذا تم سب گواہ رہو کہ میرے بندے نے مجھ سے جو کچھ مانگا میں نے اسے دے دیا۔ (مسند امام احمد)

سورہِ فرقان میں اﷲ اپنے خاص بندوں کا ذکر کر کے انہیں ’’رحمان کے بندوں‘‘ کے لقب سے یاد کر کے فرماتے ہیں، مفہوم: ’’اور (رحمان کے بندے وہ ہیں) جو راتیں اِس طرح گزارتے ہیں کہ اپنے پروردگار کے آگے (کبھی) سجدے میں ہوتے ہیں اور (کبھی) قیام میں۔‘‘ (الفرقان)

ایک جگہ ارشاد ہے، مفہوم: ’’بھلا (کیا ایسا شخص اُس کے برابر ہوسکتا ہے) جو رات کی گھڑیوں میں عبادت کرتا ہے، کبھی سجدے میں، کبھی قیام میں، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے پروردگار سے رحمت کا اُمیدوار ہے؟ کہو کہ کیا وہ جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے، سب برابر ہیں؟۔‘‘ (الزمر)

اﷲ رب العزت کے غفور و رحیم ہونے میں کوئی شبہ نہیں، تاہم اس امید سے گناہ کرتے رہنا شیطان کے واروں میں سے ایک وار ہے، موت کا وقت کسی کے علم میں نہیں، نہ معلوم کے بعد میں توبہ کا موقع ملے یا نہ ملے، دلی ندامت کے ساتھ وہ گناہ فوری طور پر چھوڑ دیا جائے اور آئندہ نہ کرنے کا پختہ عزم کیا جائے، پس اس عزم کے باوجود بھی اگر گناہ سرزد ہوجائے تو ناامید ہونے کے بہ جائے پھر توبہ کرلے، رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ بہترین خطا کار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔

بہ قول علامہ اقبال:

نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے

امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے راز دانوں میں

یعنی اﷲ کریم کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ سعدی کی مناجات کا ایک شعر ہے جو ہے تو فارسی میں، لیکن زبانِ زدِ خاص و عام رہا ہے:

مفہوم: ’’اے پروردگار! تجھ سے مغفرت اور معافی کی امید ہے کیوں کہ تُونے خود فرما رکھا ہے: اﷲ کی رحمت سے مایوس اور ناامید مت ہو۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔