پاکستان اور عوام کے مفادات سب سے پہلے

ایڈیٹوریل  اتوار 7 جولائی 2024
(فوٹو: فائل)

(فوٹو: فائل)

پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پاکستان کو جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے کے لیے صرف دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ نہیں کرنی بلکہ انتہا پسندی کے کینسر کے خاتمے کے لیے بھی اقدامات کرنے ہیں۔ ہزاروںپاکستانی شہری دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں جب کہ ملک کے اندر انتہا پسندی کے کلچر کے فروغ کی وجہ سے جو جانی نقصانات ہوئے ہیں ‘ان کی تفصیلات الگ ہیں۔

پاک فوج نے دہشت گردوں کے عزائم کو جس بہادری اور شجاعت کے ساتھ ناکام بنایا ہے، دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ذرا گہرائی سے دیکھیں تو پاکستان نے عالمی امن کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان کے 80 ہزار سیکیورٹی فورسز، پولیس اور عوام نے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ پاکستان نے عالمی امن کو قائم رکھنے کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے جوتاحال جاری ہے۔

گزشتہ روز پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کی زیرصدارت 265 ویں کور کمانڈرز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس میں ملکی سلامتی کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ”عزمِ استحکام”کے مختلف پہلوں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیااور انسدادِ دہشت گردی کے لیے اختیار کی جانے والی حکمت عملی کے ضمن میں عزمِ استحکام کو اہم قدم قرار دیا گیا ہے۔

میڈیا کے مطابق پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے اس موقع پر کہا ہے کہ پاک فوج تمام اندرونی اور بیرونی چیلنجز کو ناکام بنانے کے لیے ہمیشہ سے تیار رہی ہے، درپیش چیلنجز کے باوجود پاک فوج پاکستان کے استحکام اور خوشحالی میں اپنا بھرپور کردارادا کرتی رہے گی۔کور کمانڈرز کانفرنس نے ملک میں پائیدار استحکام اور معاشی خوشحالی کے لیے عزمِ استحکام دہشت گردی اورغیر قانونی سرگرمیوں کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنے کے لیے وقت کا اہم تقاضہ قرار دیا ،چند حلقوں کی جانب سے عزمِ استحکام کے حوالے سے بلاجواز تنقید اورمخصوص مفادات کے حصول کے لیے قیاس آرائیوں پر فورم نے اظہارِ تشویش کا اظہار کیا، فورم نے علاقائی سلامتی بالخصوص افغانستان کی صورتحال پر غور اور علاقائی امن و سلامتی کے فروغ کے لیے عزم کا اعادہ کیا۔

عسکری قیادت قوم کو درپیش چیلنجز کا بخوبی ادراک رکھتی ہے اور عوام کے تعاون سے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ایک پائیدار حل کے لیے کوشاں ہے، کانفرنس کے شرکاء نے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے جاری ڈیجیٹل دہشت گردی کو ریاستی اداروں کے خلاف سازش قرار دیا۔ شرکاء کانفرنس کا کہنا ہے کہ ریاست مخالف بیرونی طاقتوں کی سرپرستی میں جاری ڈیجیٹل دہشت گردی کا مقصد جھوٹ، جعلی خبروں اور پروپیگنڈے کے ذریعے قوم میں نفاق اور مایوسی پھیلانا ہے۔افواج پاکستان اور پاکستانی قوم ان سازشوں سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ دشمن کے مذموم مقاصد کو شکست دینے کے لیے پُرعزم اور متحد ہیں۔آرمی چیف کا کہنا تھاپاک فوج تمام اندرونی اور بیرونی چیلنجز کو ناکام بنانے کے لیے ہمیشہ سے تیار رہی ہے اوردرپیش چیلنجز کے باوجود پاک فوج پاکستان کے استحکام اور خوشحالی میں اپنا بھرپور کردارادا کرتی رہے گی۔

پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے میں ملک کے اندر موجود مخصوص لابیوں اور گروہوں کا اہم کردار ہے۔ حالیہ کچھ عرصے سے ڈیجیٹل میڈیا کے مختلف فورم کو استعمال کر کے اپنے ہی ملک کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے مخصوص گروہوں نے جو کردار ادا کیا ہے‘ وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو ناکام بنانے اور دہشت گردی کی جڑیں مضبوط کرنے میں انھی مخصوص لابیوں اور قوتوں کا ہاتھ ہے۔

جو مخصوص لابیاں اور گروہ یہ کام کر رہے ہیں ‘پاکستانی حکومتی ادارے خاصی حد تک ان کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں لیکن ملک کے سسٹم میں گھسی ہوئی یہ لابیاں تاحال سرگرم عمل ہیں‘پاکستان کو دنیا میں بطور ایک مہذب اور پرامن ملک بنانے کے لیے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ لازم ہو چکا ہے۔ بہر حال یہ امر خوش آیند ہے کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے آپریشن عزم استحکام بارے وفاقی حکومت کی اے پی سی میں بھرپور شرکت کی یقین دہانی کرا ئی ہے۔

کوئٹہ میں کوئٹہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ وفاقی حکومت نے آپریشن عزم استحکام کا اعلان کیا ہے جس پر وزیراعظم نے آل پارٹیز کانفرنس طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی وفاقی حکومت کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت ضرور کرے گی اور اپنے نمایندوں کو بھیج کر اس میں بلوچستان کے حالات و امن و امان کے حوالے سے بھی آواز اٹھائے گی۔ادھر تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے بھی کہا ہے ہماری جماعت وزیراعظم کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کرے گی کیونکہ عزم استحکام آپریشن ملکی معاملہ ہے،البتہ آل پارٹیز کانفرنس میں صرف سننے کی حیثیت میں شرکت کریں گے،اے پی سی میں شرکت کا فیصلہ صرف پاکستان کی خاطر کیا ہے۔

انھوں نے اپنا پرانا موقف دہرایا کہ افغانستان سے تعلقات مضبوط نہ ہونے تک ٹی ٹی پی سے جنگ نہیں جیت سکتے،آپ طالبان کے خلاف آپریشن کریں گے وہ افغانستان بھاگ جائیں گے۔بہر حال پی ٹی آئی کے بانی کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس میں شریک ہونے کا عندیہ دینا ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر بھی دہشت گردوں کے خلاف طاقتور آواز موجود ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ خیبرپختونخوا کی تعمیر و ترقی اور یہاں قیام امن کے لیے دہشت گردوں کا خاتمہ انتہائی ضروری ہو چکا ہے۔

خیبرپختونخوا دہشت گردوں کے ہاتھوں مسلسل نقصانات اٹھا رہا ہے۔ خیبرپختونخوا میں سیاحت کی صنعت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ سیاحت میں کمی کی وجہ سے ہوٹل انڈسٹری زوال پذیر ہوئی ہے جس کی وجہ سے روز گار کے مواقع کم ہوئے ہیں اور تجارتی سرگرمیاں بھی کم ہو گئی ہیں۔خیبرپختونخوا ایسا علاقہ ہے جہاں عالمی اور ملکی سیاحوں کی دلچسپی کے لیے بہت کچھ ہے۔

لیکن انتہا پسندی اور دہشت گردی نے اس سیکٹر کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا ہے۔خیبرپختونخوا میں نہ تو عالمی سرمایہ کار گروپ سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی کراچی ‘لاہور ‘سیالکوٹ‘ گوجرانوالہ اور فیصل آباد کا صنعت کار وہاں سرمایہ لگانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کار بھی اپنے صوبے میں بڑی سرمایہ کاری نہیں کرتے ‘اس وجہ سے خیبرپختونخوا گزشتہ پون صدی سے پسماندہ اور ناخواندہ چلا آ رہا ہے۔ اس پسماندگی اور ناخواندگی کا ذمے دار وہ گروہ ہے جو اپنے مفادات کی خاطر خیبرپختونخوا میں مڈل کلاس اور ورکنگ کلاس کا ارتقا نہیں ہونے دے رہا۔ بلوچستان کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہے جب کہ اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کا بھی یہی حال ہے۔ انتہا پسندی قبائلی نظام اور جاگیرداری سسٹم کی بقا کا اہم عنصر ہے۔جب تک اس عنصر کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا پاکستان کے پسماندہ علاقے پڑھی لکھی مڈل کلاس اور ہنر مند طبقے سے محروم رہیں گے۔

افغانستان کی پسماندگی کی وجہ بھی سماجی اور معاشی ارتقا کے عمل کا رکنا ہے۔افغانستان میں  مذہبی جہادی تنظیموںکے عہدے داروں اور طالبان کی قیادت کے نظریات افغانستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔افغانستان ایسا ملک بن چکا ہے جہاں نہ کوئی صنعت ہے‘نہ سیاحت ہے‘نہ انٹرٹینمنٹ ہے‘بینکنگ سسٹم بھی موجود نہیں ہے۔عالمی کاروباری ادارے بھی افغانستان میں اپنے آؤٹ لٹس کھولنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ایسے حالات میں پاکستان کے اندر جو گروہ ابھی تک افغانستان اور طالبان کی حمایت کر رہے ہیں‘ان کی فہم و دانش پر سوائے افسوس کے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ افغانستان میںطالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد سے دہشت گردی کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ افغانستان کی عبوری حکومت ٹی ٹی پی کی حفاظت کررہی ہے۔ سرحد پار سے آنے والے یہ خطرات علاقائی سلامتی کے لیے مزید پیچیدہ بنتے جا رہے ہیں اور چینیوں کی سیکیورٹی کو بھی یہ خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ پاکستان نے یہ مسئلہ افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ اٹھایا ہے اور ان پر زور بھی دیا ہے کہ وہاں جو گروہ دہشت گردی کر رہے ہیں، انھیں روکیں اور ان کے خلاف کارروائی کریں، لیکن ابھی تک افغانستان سے کوئی اچھے نتائج سامنے نہیں آ رہے ہیں لہٰذا پاکستان کو اپنے وائٹل مفادات کے تحفظ کے لیے جوابی پالیسی بنانے کا اختیار ہے۔

پاکستان کی حکومت اور تمام سرکاری افسران و ملازمین ‘نظام انصاف اور تمام سیاسی و مذہبی سیاسی جماعتوں کی قیادت اس ملک کے عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے کی پابند ہے‘ کیونکہ ریاستی اور سرکاری عہدے داروں کو پاکستان کے عوام اپنے ٹیکسوں سے تنخواہیں اور مراعات دے رہے ہیں ‘سیاسی و مذہبی قیادت پاکستان اور اس کے عوام کے بل بوتے پر سیاست کرتے ہیں اور اراکین پارلیمنٹ منتخب ہوتے ہیں ‘صدر ‘وزیراعظم‘وزیر اور گورنرز بنتے ہیں لہٰذا پاکستان کے عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے چونکہ چنانچہ اور اگر مگر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔