جرائم کا سرچشمہ حکومت اور نظام

دنیا میں باوجود تدابیر کے جرائم بڑھتے جارہے ہیں، نئے نئے جرائم پیدا ہورہے ہیں


Saad Ulllah Jaan Baraq July 09, 2024
[email protected]

کیا یہ بات انتہائی حیران کن اور پریشان کن نہیں ہے؟ کہ انسان جتنا ترقی کرتا جا رہا ہے، تعلیم یافتہ ہوتا جارہا ہے اور بزعم خویش مہذب ہوتا جارہا ہے، اتنا ہی زیادہ بے راہرو،وحشی اور مجرم بھی ہوتا جارہا ہے یا یوں کہیے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوتی جارہی ہے، اتنے ہی جرائم بڑھتے جارہے ہیں۔ایسے ایسے اور بھانت بھانت کے جرائم سامنے آرہے ہیں کہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھے ،گویا ایجادات کا سلسلہ جرائم میں بھی زوروں سے چل رہا ہے۔

مطلب کہ مجرم قانون سے دو قدم آگے چل رہا ہے۔حکومتیں جرائم روکنے کے لیے جو ادارے بناتی ہیں ،کچھ ہی عرصے میں وہ خود جرائم کے سرچشموں میں بدل جاتے ہیں خاص طور پر ہمارے پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں حکومت سے لے کر قوانین اور امراء سے لے کر مساکین تک سب جعلی اور دونمبری ہیں۔ جن کا کام جرائم روکنا اور قانون نافذ کرنا ہے، وہ پشت پناہ ہیں، جو اشراف ہیں، وہ خرافات ہیں اور جو مساکین ہیں، وہ بھی پھٹیچر ہیں۔ ''رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور''

ہم نے چاہا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد

وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا

پچھلے دنوں ہم نے ان کالموں میں جناب فصیح الدین اشرف کی کتاب''ذوق پرواز'' پر بات کی تھی یہ کتاب ان سفرناموں کا مجموعہ ہے ۔ وہ پولیس میں ڈی آئی جی رینک کے افسر ہیں ،مانے ہوئے کرمنالوجسٹ ہیں، اس لیے ایسی بے شمار تقاریب میں مدعو کیے گئے ہیں اور ان تمام ممالک میں جرائم اور ماہرین جرائم سے ملے ہیں ان کے مقالات سنے ہیں، ان سے تفصیلی معلومات حاصل کرچکے ہیں ۔مختصر یہ کہ دنیا کے ترقی یافتہ،ترقی پزیر اور پس ماندہ سارے ممالک کے جرائم اور ماہرین جرائم سے گہری واقفیت اور جان کاری رکھتے ہیں۔ان کی اس کتاب سے جو بات ہم نے اخذ کی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں باوجود تدابیر کے جرائم بڑھتے جارہے ہیں، نئے نئے جرائم پیدا ہورہے ہیں اور انسانیت کو بُری طرح لاحق ہورہے ہیں یہاں تک کہ دنیا بھر کے ممالک کے باتدبیر ان کے مقابلے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔گویا مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی یا

الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا

المیہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے دانا دانشور،اہل تدبیر اور انسانیت کا درد رکھنے والے حیران و پریشان ہیں کہ انسان نے طرح طرح کے علوم میں کہاں کہاں تک ترقی کرلی۔لیکن اس کے باوجود اپنی اس بیماری دل کے مقابلے میں بے بس اور لاچار ہے۔علوم کے نقارے بج رہے ہیں، واعظوں، ناصحوں اور مبلغوں کی تعداد بھی بے پناہ ہوگئی، کتابیں،ڈرامے اور فلمیں بھی بن رہی ہیں، نفسیاتی ماہرین بھی لگے ہوئے ہیں ، مخیرادارے اور حضرات بھی سرگرم ہیں لیکن جرائم ہیں کہ''ختم'' تو کیا کم ہوکر بھی نہیں دے رہے ہیں بلکہ بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں اورنئی نئی شاخیں اور کونپلیں پھوٹ رہی ہیں َکیوں؟ آخر وجہ کیا کہ''ہرکوئی''چاہتا ہے کہ معاشرہ جرائم سے پاک ہو لیکن نتیجہ صفر۔وجہ وہی ہے۔بلکہ وہی''کتا'' ہے جو کنوئیں کی تہہ میں پڑا ہوا ہے۔ آپ خود سوچیے کہ ایک ایسا کنواں جس کی تہہ میں مرا ہواکتا پڑا ہو، وہ کنواں پانی نکالنے سے''صاف'' ہوسکتا ہے۔بلکہ اب تو وہ گل سڑ کر سارے پانی کو گندہ کرچکا ہے۔ایسے کنوئیں سے پانی کے ڈول تو کیا ، اگر اس پر موٹر لگا کر سارا پانی بھی نکالا جائے تو صاف نہیں ہوسکتا۔ ہمارے سسٹم کے کنوئیں میں اس وقت جو کتا پڑا ہوا ہے، ہم اسے نکالے بغیر کنوئیں کو ''صاف'' کرنا چاہتے ہیں جو ناممکن ہے

ہم خدا خواہی وہم دنیا ئے دوں

ایں خیال است و محال است وجنوں

یہ کتا دنیا بھر میں وہ مخصوص قسم کی حکمران اقلیت ہے جو خود کو اشرافیہ کہتی ہے لیکن حقیقت میں''ابلسیہ'' ہوتی ہے وہی برتری کا''میں'' لیے ہوئے''ہم'' کا استحصال کرنے والی،کچھ بھی نہ کرکے سب کچھ چھیننے والی پندرہ فیصد ہوکر پچاسی فیصد ہڑپنے والی اور پچاسی فیصد عوامیہ کو پندرہ فیصد بھی نہ دینے والی۔یہ کتا تقریباً ہر نظام اور معاشرے کے کنوئیں میں پڑا ہوا ہے لیکن کسی میں چھوٹا ، کسی میں سالم اور کسی میں گل سڑکر ریزہ ریزہ ہوکر سارے پانی میں حل ہوکر موجود ہے۔ہمارے پاکستانی معاشرے میں یہ گل سڑ کر ریزہ ریزہ ہوکر بلکہ سیال بن کر سارے پانی کو گندہ کرچکا ہے چنانچہ ایسا مقام کوئی بھی بچا نہیں جہاں اس کتے کے کیڑے پنپ نہ رہے ہوں کلبلا نہ رہے ہوں۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

پاکستان