نوجوان قیمتی اثاثہدرست سمت دینے سے ترقی کا خواب پورا ہوسکتا ہے

ہماری آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جو سوشل میڈیا سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں


،سوشل میڈیا سے نوجوانوں کے نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے، ان کی سیاسی شمولیت یقینی بنانا ہوگی، بہتر روزگار کیلئے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا: شرکاء کا ’’نوجوانوں کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ عیاسی محمود قریشی

12 اگست کو دنیا بھر میں نوجوانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اس دن کی مناسبت سے سرکاری و نجی سطح پر تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

خوش قسمتی سے ہماری آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں اور مستقبل بھی۔ اگر انہیں درست سمت دے دی جائے تو ملکی ترقی کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔ اس وقت نوجوانوں کی صورتحال کیا ہے، انہیں کن چیلنجز کا سامنا ہے، حکومت ان کیلئے کیا اقدامات کر رہی ہے؟ اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ''نوجوانوں کے عالمی دن'' کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور نوجوان نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پرویز اقبال

(ڈی جی سپورٹس اینڈ یوتھ افیئرز پنجاب)

ہماری آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جو سوشل میڈیا سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، ان کے سماجی اور نفسیاتی مسائل بڑھ رہے ہیں، ایسے حالات میں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان کی رہنمائی کرے، انہیں درست سمت دے اور وسائل بھی فراہم کرے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز کی ترجیحات میں نوجوان شامل ہیں۔ وہ نوجوانوں کو آگے لانا چاہتی ہیں تاکہ ان کی فرسٹیشن کم ہوسکے۔ اسی لیے پنجاب حکومت نوجوانوں کیلئے بڑے منصوبے لا رہی ہے تاکہ انہیں صحت مند سرگرمیوں میں شامل کر کے سوشل میڈیا کے برے اثرات سے محفوظ رکھا جا سکے۔

ہم نے کھیلوں کا سمر کیپ لگایا، بہترین ٹرینرز سے بچوں کو تربیت دلوائی گئی، وہ جب تھک کر جاتے تھے تو سوشل میڈیا سے دور رہتے تھے اور فزیکل ایکٹیویٹی کی وجہ سے ان کی ذہنی و جسمانی صحت بھی بہتر ہوئی۔ اب ہم بڑے پیمانے پر کھیلوں کا انعقاد کرنے جا رہے ہیں جن میں 10 لاکھ نوجوانوں کو شامل کیا جائے گا۔ یونین کونسل سے صوبائی سطح تک نوجوانوں کی شمولیت یقینی بنائی جائے گی۔ ہم تعلیمی اداروں کو بھی دعوت دے رہے ہیں کہ وہ ہماری سہولیات استعمال کریں، ہم طلبہ کی ٹریننگ اور گرومنگ کریں گے۔ ہم نے یوتھ ایکسچینج پروگرام شروع کیا جس کے تحت بلوچ طلبہ کو یہاں بلایاگیا تاکہ بین الصوبائی ہم آہنگی کو فروغ ملے اور نوجوانوں کو ایمپاور کیا جاسکے۔

اس وقت پنجاب میں ہماری 20 ای لائبریریز ہیں جن کے ہزاروں ممبران ہیں جنہیں مفت سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ ای روزگار پروگرام کے تحت اب تک 58 ہزار طلبہ کو تربیت فراہم کی جا چکی ہے۔ اب حکومت پنجاب نوجوانوں کو ہنر مند بنانے اور انہیں روزگار فراہم کرنے کیلئے وزیراعلیٰ انٹرن شپ پروگرام لا رہی ہے۔ اس منصوبے کیلئے 1 ارب کا فنڈ رکھا گیا ہے، 6 ہزار طلبہ کو ماہانہ انٹرن شپ اور 25 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جائے گا۔ اس طرح انہیں گھر سے سیدھا روزگار فراہم کر دیا جائے گا، بچوں کا تجربہ بڑھے گا اور ملازمت کے مواقع پیدا ہونگے۔ ہمارے نوجوان قابل ہیں جنہیں فیصلہ سازی میں شامل کرنے سے بہتری آئے گی۔

اس ضمن میں ہم نے 32 رکنی یوتھ کمیٹی تشکیل دی ہے، 16 یونیورسٹیز کو خطوط لکھے اور ہر یونیورسٹی کی طرف سے 2 طلبہ کو اس میں شامل کیا گیا۔ میرے نزدیک ہمیں نوجوانوں کو انگیج کرنا ہے، ان کی تربیت اور گرومنگ کرنی ہے اور انہیں معاشی طور پر خودمختار بنانا ہے۔ اگر ہم نے یہ کر لیا تو نہ صرف نوجوانوں کے مسائل حل ہو جائیں گے بلکہ وہ ملکی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کریں گے۔ کھیل کے فروغ کیلئے ہم 2 ارب روپے کا انڈومنٹ فنڈ لا رہے ہیں، اس کے تحت 200 کھلاڑیوں کو 70 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جائے گا۔ اس طرح وہ معاشی طور پر خودمختار بھی ہونگے اور اپنی کھیل بھی جاری رکھیں گے۔ ہم یوتھ پالیسی بنانے جا رہے ہیں جس میں نوجوانوں سے ان کی رائے لی جائے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نوجوان جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں لہٰذا ان کی شمولیت سے بہتری آئے گی۔

عیشہ شاہد

(کلینکل سائیکالوجسٹ)

سکولوں میں زیر تعلیم بچے خوش نہیں، ان پر پرفارمنس کے نام پر بوجھ ڈالا گیا ہے وہ ان کی نفسیات پر گہرا اثر چھوڑتا ہے لہٰذا والدین اور اساتذہ کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ بچوں کو بڑے امتحان میں نہ ڈالیں، ہر چیز کا وقت ہے، 18 برس کا بچہ، ایک پروفیسر جیسا پرفارم نہیں کر سکتا، اسے کم عمری کا مارجن ضرور دیں۔

بدقسمتی سے ہمارے بچوں کے ساتھ سوشل میڈیا کی صورت میں زیادتی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ان تک جو کچھ پہنچ رہا ہے اس سے ان کی زندگیوں میں الجھنیں بڑھ رہی ہیں، وہ اپنے اہداف مقرر نہیں کر پا رہے جس سے ان کی شخصیت متاثر ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر مختلف طرح کی چیزیں دیکھ کر وہ بڑے بڑے گولز رکھ لیتے ہیں، انہیں شخصیت ٹام کروز جیسی چاہیے اور پیسہ بل گیٹس جتنا، یہ غیر حقیقی گولز ان کیلئے بڑا مسئلہ ہیں۔ ہمیں بچوں کی رہنمائی کرنی ہے۔

ان کی کیرئر کونسلنگ کرنی ہے، انہیں سائیکالوجیکل مددفراہم کرنی ہے، انہیں حوصلہ دینا ہے اور گولز سیٹنگ سکھانی ہے۔ ہماری یوتھ اس وقت کلچرل شفٹ سے گزر رہی ہے لہٰذا انہیں انتہائی تحمل کے ساتھ ڈیل کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے، ان کے گولز جتنے حقیقت پسندانہ ہونگے، اتنا انہیں سکون ہوگا۔ سوشل میڈیا کے نفسیاتی مسائل کے بارے میں ایک تحقیق میں سامنے آیا کہ فیس بک استعمال کرنے والوں کو ہر نوٹفیکشن ملنے میں ان کے جسم میں سٹریس ہارمون ریلیز ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے بچے سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال کی وجہ سے چڑچڑے ہو رہے ہیں۔

ان کی نیند پوری نہیں ہو رہی، بے چینی کی کیفیت ہے۔ ہمارے نوجوان سوشل میڈیا پر خود کا موازنہ دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان میں احساس کمتری اور محرومی پیدا ہو رہا ہے۔ ہمیں انہیں اعتماد دینا ہے، انہیں مقابلے کے بجائے ایک دوسرے سے تعاون کی سوچ دینا ہوگی۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ انسانی تہذیب نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے سے ہی فروغ پایا ہے، تعاون ہی بقاء کی وجہ سے لہٰذا مل کر اپنے اہداف حاصل کریں، ہمیں اکیلے نہیں بلکہ سب کو ساتھ لے کر اڑنا ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے بچے پہلے سے کہیں زیادہ نفسیاتی دباؤ اور مسائل کا شکار ہیں، والدین گھبرائیں نہیں بلکہ ماہر نفسیات سے رجوع کریں۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہم شوگر اور سردرد کیلئے تو دوا کھا لیتے ہیں لیکن یہ جس سٹریس کی وجہ سے ہو رہا ہے اس کا علاج نہیں کرواتے۔ ہم فطرت سے دور ہو گئے ہیں، ہمیں اپنا طرز عمل بدلنا ہوگا۔

آمنہ افضل

(نمائندہ سول سوسائٹی)

12 اگست کو دنیا بھر میں نوجوانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس روز نوجوانوں کے مسائل اور ان کے مطالبات پر غور کیاجاتا ہے اور آئندہ کا لائحہ عمل بنایا جاتا ہے۔ پاکستان کی 64 فیصدسے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جو خوش آئند ہے مگر افسوس ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے پاس بہتر گائڈلائنز موجود نہیں لہٰذا وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی رہنمائی کی جائے ورنہ مسائل مزید بڑھیں گے اور حالات خراب ہوتے جائیں گے۔ ہماری یوتھ کا 32فیصد خواتین ہیں جن کی حالت تشویشناک ہے۔ یہ باعث افسوس ہے کہ 70 فیصد طلبہ میٹرک کے بعد تعلیم جاری نہیں رکھتے۔ اس وقت 2 کروڑ سے زائد بچے ایسے ہیںجو سکول ہی نہیں جاتے۔

یہ ہمارا مستقبل ہیں جس کی خراب حالت ہمارے مستقبل کا پیش خیمہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے پدر شاہی نظام میں خواتین تعلیم جیسے بنیادی حق سے بھی محروم ہیں۔ انہیں روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر کی تعلیم بھی دینی چاہیے۔ میرا تعلق شاہدرہ، لاہور سے ہے، یہاں بھی ایسی فرسودہ سوچ پائی جاتی ہے جو باعث تشویش ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کیلئے انٹرنیٹ کا استعمال ممنوع ہے، خواتین کے پاس موبائل بھی نہیں۔ رواں برس نوجوانوں کے عالمی دن کا موضوع 'فرام کلک ٹو پراگریس :یوتھ ڈجیٹل پاتھ ویز فار سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ' ہے لہٰذا ہمیں نوجوانوں اور خواتین کو ڈیجیٹل سکلز سے متعارف کرانا ہوگا۔

حکومت کو سرکاری سطح پر ڈیجیٹل سکلز پر بڑے پیمانے پر کام کرنا ہوگا۔ اگرہم ترقی چاہتے ہیں تو ایس ڈی جی نمبر 5 ، صنفی برابری پر کام کرنا ہوگا۔ مرد، عورت، خواجہ سرا، اقلیتوں سمیت سب کو ان کے حقوق دیے جائیں اور کسی قسم کی کوئی تفریق نہ کی جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نظام میں کمی ہے، یہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ آئین کا آرٹیکل 25(A) تعلیم کے حوالے سے ہے، جو 16 برس سے کم عمر شہری کی مفت اور لازمی تعلیم کی بات کرتا ہے اور اس پر ریاست کو پابند کرتا ہے۔ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے چائلڈ لیبر میں اضافہ ہو رہا ہے، اگر آئین کی اس شق پر عمل کیا جائے تو معاشرے میں بہتری آئے گی، چائلڈ لیبر کا خاتمہ ہوگا، ان پر تشدد نہیں ہوگا۔

یہ باعث افسوس ہے کہ ڈگری ہولڈرنوجوان بے روزگار ہیں، انہیں جدید سکلز دے کر دنیا کے حساب سے تیار کرنا ہوگا۔ ڈومیسٹک ورکرز کی حالت بھی مخدوش ہے، ان کے بچوں کیلئے تعلیم، صحت و دیگر سہولیات کا فقدان ہے، ہمیں ان پر توجہ دینا ہوگی۔ سکولوں میں اساتذہ کا سخت اور حوصلہ شکن رویہ بچوں کو باغی بنا رہا ہے، اساتذہ کی لازمی تربیت کی جائے، ان کی سائیکالوجی کی تربیت بھی دی جائے۔ نوجوانوں کے عالمی دن کے موقع پر مطالبہ ہے کہ نوجوانوں کو جدید تقاضوں کے مطابق تیار کیا جائے، سب کو انٹرنیٹ تک رسائی دی جائے، موسمیاتی تبدیلیوں اور مقامی حکومتو ں کے حوالے سے اقدامات کیے جائیں۔

ضابطہ اخلاق وضع کیا جائے، طلبہ یونینز کی بحالی کی جائے،ا نہیں بااختیار بنایا جائے، نوجوانوں کی سیاسی شمولیت آسان اور یقینی بنائی جائے، خواتین کیلئے 50 فیصد نشستیں مختص کی جائیں، ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز بنائے جائیں، نوجوانوں کی کیرئر کونسلنگ کی جائے، نوجوانوں کو مفت سفری سہولیات دی جائیں اور آئین کے آرٹیکل 25(A) پر موثر عملدرآمد کیا جائے۔ اگر ہم نے یہ سب کر لیا تو نوجوانوں کو درست سمت ملے گی، وہ ہنرمند ہونگے اور ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف حکومت نے حاصل کرنے ہیں، ہم بطور سول سوسائٹی اس کے حصول میں حکومت کی مدد کر رہے ہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت نچلی سطح تک کام کر رہے ہیں۔

ڈینئل میسی

(رکن یوتھ پارلیمنٹ)

قومی یوتھ پالیسی کے مطابق 15 سے29 برس عمر کے افراد نوجوان ہیں جبکہ حکومتی منصوبوں میں یہ عمر 18 سے35 برس ہے۔ ملک میں اس وقت 68 فیصد یوتھ ہے جو آبادی کا بڑا حصہ ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق 12 کروڑ7 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن میں سے 55 ملین یوتھ ہے، یعنی 43 فیصد رجسٹرڈ ووٹرز 18 سے35 برس عمر کے ہیں۔ 2013ء کے عام انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ 52 فیصد تھا جس میں 26 فیصد نوجوان تھے۔ 2018ء میں ٹرن آؤٹ 51 فیصد رہا جس میں سے 37 فیصد نوجوان تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوانون میں ووٹ دینے کا رجحان بڑھا ہے۔ سب کہتے ہیں کہ نوجوان ہمارا اثاثہ ہیں مگر حقیقت میں کوئی کام نہیں کرتا۔ نوجوانو ں کی سیاسی شمولیت کی بات کی جائے تو حالیہ الیکشن میں 4.9 فیصد امیدوار نوجوان تھے، صوبائی سطح پر صرف7 فیصد نے الیکشن لڑا۔ 342 کے ایوان میں 4 ایم این ایز 35 برس سے کم ہیں یقینی قومی اسمبلی میں صرف1.16 فیصد یوتھ کی نمائندگی ہے۔

اسی طرح سندھ اسمبلی میں 16 فیصد، خیبر پختونخوا اسمبلی میں 14 فیصد، بلوچستان اسمبلی میں 9 فیصد اور پنجاب اسمبلی میں 3 فیصد نوجوان ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نوجوانوں کے لیے پالیسی بنانے والے نوجوان نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن کا تعلق یوتھ سے نہیں وہ کیسے ہمارے مسائل سمجھ سکتے ہیں، ہم ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ اقلیتوں میں 3 فیصد یوتھ ہے، ان کے مسائل بھی زیادہ ہیں، ہمیں معاشرے سے عدم مساوات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ قائد اعظم ؒ کی 11 اگست کی تقریر کی روشنی میں ملک کو آگے بڑھانا ہوگا اور آئین کے آرٹیکل 20 پر من و عن عمل کرنا ہوگا۔ اسی طرح آرٹیکل 25(A) کے تحت مفت اور لازمی تعلیم یقینی بنائی جائے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کی ترجیحات یوتھ نہیں الیکٹیبلز ہیں، اگر ہمیں اپنے معاملات آگے بڑھانے ہیں تو نوجوانوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔