''بیٹا تمھیں وہاں تمھاری ماں کی طرح پیار کرنے، سنبھالنے والا کوئی نہیں ہوگا!''
یہ الفاظ دادی جان نے اس وقت کہے جب ان سے پاکستان سے باہر جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ان کا یہ جواب آج بھی کانوں میں گونجتا ہے اور وقت نے اسے درست ثابت کیا۔
ہماری بی بی (دادی) جو ہجرت کے قصے اور آزادی کے گیت بڑے شوق سے سنایا کرتی تھیں۔ ان کا پلنگ، چھڑی اور ہندوستان سے ہجرت کے وقت لائی ہوئی خوبصورت چادر آج بھی موجود ہے، مگر وہ نہیں ہیں اور شاید جو جذبه وطن عزیز کو لے کران میں تھا، وہ بھی کہیں کھو سا گیا ہے۔
اگست کا مہینہ شروع ہونے کی دیر ہوتی اور یوں شہر کے شہر سفید سبز ہوجاتے، گویا کہ پرچم میں لپٹے ہوں۔ محلے کا شاید ہی کوئی مکان ہوتا جس پر پاکستانی پرچم نہ لہرا رہا ہوتا، گھر میں سب مل کر بہت محنت سے جھنڈیوں کو آٹے کی گوند سے چپکا کر گھروں کو بڑے پیار سے سجاتے، اونچی آواز میں ملی نغمے میدان جنگ سا جذبہ پیدا کرتے، جو پورے جسم میں بجلی کی طرح دوڑتا، آزادی کی خوشی اور جشن میں نئے کپڑے بنوانا گویا کہ ہر گھر میں عید کا سماں ہوتا۔ مگراب وہ جذبے ماند سے پڑگئے ہیں۔
اب 14 اگست کو محض ایک عام سا دن سمجھ کر گزار لیا جاتا ہے۔ جشن منانے والوں کو نہیں معلوم کہ اس دن کی اہمیت کیا ہے اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ بحیثیت شہری ہمارا اس دن کو کےلیے کیا فرض بنتا ہے۔ شاید افسوس ناک بات تو یہ بھی ہے کہ آج کی دادیاں وہ ہماری دادی، نانی جیسی ہی نہیں رہیں جو اپنی نسلوں کو ''حُب'' کا مطلب ہی سمجھا سکیں، قصے تو بہت دور کی بات ٹھہرے۔
ہم آزادی کی قدر و قیمت نہیں جانتے اور شاید ہم جاننا اور سمجھنا بھی نہیں چاہتے، کیونکہ آج کی نسل کےلیے ملک اس وقت رہنے کے قابل ہی نہیں رہتا جب اس میں روزگار نہ ملے، جب اس میں ہر وقت عدم استحکام کی بازگشت ہو اور خاص کر تب جب اس ملک میں معاشرے کی روایات، سختیاں محسوس ہونے لگ جائیں۔
ہم صرف خود کو دیکھ کر، خود کا مقابلہ یا تو خودی سے کرتے ہیں یا ان ملکوں سے کرتے ہیں جو ہر لحاظ سے ہم سے مختلف اور اپنے مطابق، اپنے درجے کے ''کامیاب'' ہیں۔
ہماری آج کی مائیں اپنے بچوں کی توجہ اس جانب کیوں مبذول نہیں کرواتیں کہ دیکھو تم تو آزاد ہو! مگر تمھارے مسلمان بہن بھائی دنیا کے جدید اور تمھارے ''آئیڈیل'' ملکوں میں ظلم برداشت کررہے، پس رہے ہیں۔ وہ کیوں نہیں بتاتیں کہ ہم اتنے آزاد تو کم از کم ہیں کہ ہمارے ملک کا کوئی باسی یہ خوف لیے رات کو نہیں سوتا کہ نجانے کس وقت میزائل آگرے، نجانے اگلے بم کا نشانہ کس کا گھر ہو۔ ہم اتنے آزاد تو کم از کم ہیں کہ ہمارے ملک میں کوئی باپ اتنا بے بس نہیں ہوتا کہ اس کو اپنے معصوم بچوں کے ٹکڑے اکھٹے کرنے پڑیں۔
ہمارے ہاں شہر کے شہر تو فاقوں نہیں مررہے۔ ہمارے جوانوں کو اپنی تعلیم اور خوابوں کو پورا کرنے کےلیے اس بات کا کوئی غم تو نہیں ہے کہ ان کے اسکول کالجوں کی بلڈنگز ملبے کا ڈھیر بنی ہیں۔
آج مملکت خداداد کو الحمدللہ 77 برس مکمل ہوگئے ہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری یہ قوم اپنے نظریے کو ہی نہیں پہچان سکی۔ نہیں جان پائی کہ اس کا مستقبل باجے بجا بجا کر دوسروں کی زندگی اجیرن کرنا نہیں بلکہ اس زمیں کی حفاظت اور دل و جان سے خدمت کرنا ہے۔ کم از کم ہمارے پاس اپنی ذاتی کشتی تو ہے چاہے جیسی بھی، ہم اس کے رخ بدلنے کےلیے کسی کے پابند تو نہیں۔
نوجوانوں کو سوچنا ہوگا اور ہماری ماؤں کو یہ ذمئ داری ان کے کاندھوں پر ڈالنا ہوگی کہ آپ اس ملک و ملت کے امین ہو۔ خدارا اس امانت میں خیانت نہ کرنا۔ آپ اس ملک کے آئین کے پاسدار ہو۔ آپ کی ذمے داری ہے کہ آپ فکرِ اقبال اور مشن قائداعظم کی حفاظت کریں۔ آپ اس ملک کے جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں۔
اس یوم آزادی، یہ شہیدوں کی زمین اتنا تو حق رکھتی ہے کہ ہم خاص کر نوجوان، اس سے ایک ہی سہی مگر سچا وعدہ کریں۔ ایک سچا عہد کریں کہ ہم اپنے دلوں سے اس دھرتی ماں کی محبت کو کم نہیں ہونے دیں گے۔ ہم اپنا ہر جشن آزادی چاہے جس بھی حال میں ہوں، بھرپور منائیں گے اور اپنی دھرتی کا پرچم کبھی سرنگوں نہیں ہونے دیں گے۔ ہم سچا عہد کرتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔