- انٹربورڈ کراچی؛ پری انجینئرنگ سال دوم کے نتائج کا اعلان کل کیا جائے گا
- سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے، وزیراعظم
- 'کنگ آف کلے' ٹینس اسٹار نڈال کا ریٹائرمنٹ کا اعلان
- خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی فورسز کے دو الگ الگ آپریشنز میں چار خوارج ہلاک
- باسط علی کا بابراعظم کو آرام کا مشورہ، شان مسعود کو ناکام کپتان قرار دیدیا
- کراچی: تیز آندھی کے باعث تاجر یونین کا صدر چھت سے گر کر جاں بحق
- معاشی بہتری کے ساتھ گاڑیوں کی فروخت میں بھی اضافہ
- جنسی اسکینڈل؛ ترکیہ کی خاتون فٹ بال ریفری اور سینیئر عہدیدار معطل
- یکم نومبرکے بعد نان فائلرز کے خلاف کارروائیاں شروع ہوں گی، ایف بی آر
- آئینی ترامیم پر کوشش ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر لائیں، شیری رحمان
- صدر مملکت آصف علی زرداری دو روزہ دورے پر ترکمانستان پہنچ گئے
- زرمبادلہ کے ذخائر میں 10 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کا اضافہ
- ایئر پورٹ آﺅٹ سورسنگ، وزیراعظم کا بولی دہندہ کی شکایت پر نوٹس
- افغانستان پوری دنیا کے دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن چکا
- مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کا 5 آئی پی پیز کے معاہدے ختم کرنے کا خیرمقدم
- اسرائیلی فوج کی اسکول پر بمباری؛ 28 فلسطینی شہید اور 54 زخمی
- گوگل نے تصویر بنانے کے لیے جدید اے آئی ٹول متعارف کرا دیا
- امن کے لیے ہم نے اپنی سیاست قربان کرکے جانوں کے نذرانے دیے ہیں، ایمل ولی خان
- انٹربینک میں ڈالر کی پیش قدمی جاری، اوپن مارکیٹ میں قدر گرگئی
- انجمن تاجران کی ایس سی او کانفرنس میں سیکیورٹی انتظامات کیلئے مکمل تعاون کی یقین دہانی
آرٹیکل 63 اے پر نظرثانی کی 27ماہ بعد سماعت ہوئی جلد بازی کا الزام غلط ہے، تحریری فیصلہ
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ نظرثانی 27ماہ بعد سماعت کیلئے مقرر ہوئی، معاملے پر جلد بازی کا الزام بے بنیاد ہے، سابق چیف جسٹس عمر عطابندیال نے پورے دور میں نظر ثانی سماعت کیلئے مقرر نہیں کی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63اے نظر ثانی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ فیصلہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے جو کہ 23 صفحات پر مشتمل ہے۔
فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ صدارتی ریفرنس عارف علوی نے سپریم کورٹ بھیجا تھا، صدارتی ریفرنس میں کابینہ سے منظوری یا وزیراعظم کی ایڈوائز کا کوئی حوالہ منسلک نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ نے ایک آئینی درخواست کی سماعت کے دوران سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کا بیان ریکارڈ کیا۔
فیصلے میں بتایا گیا کہ سابق اٹارنی جنرل نے کہا ہم آرٹیکل 63اے کے بارے میں ایک ریفرنس لا رہے ہیں، سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل دو رکنی بنچ نے حکم نامے میں لکھوایا ریفرنس اور آئینی درخواست کو یکجا کیا جائے، حیران کُن طور پر صدر مملکت اس وقت بیچ میں آئے جب وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے معاملے پر سیاسی جھگڑا چل رہا تھا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ جسٹس منیب اختر ریگولر مقدمات کیلئے دستیاب تھے لیکن نظر ثانی بنچ میں شامل نہیں ہوئے، 27ماہ بعد نظر ثانی سماعت کیلئے مقرر ہوئی، معاملے پر جلد بازی کا الزام مکمل طور پر بے بنیاد ہے، سابق چیف جسٹس عمر عطابندیال نے پورے دور میں نظر ثانی سماعت کیلئے مقرر نہیں کی، جسٹس منیب اختر نے بھی سابق چیف جسٹس عمر عطابندیال کو نظر ثانی سماعت کیلئے مقرر کرنے کی یاد دہانی نہیں کرائی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔