کوچۂ سخن

کیسے نہ کہا جائے اسے کام کا منظر<br /> آنکھوں کی ضرورت ہے در و بام کا منظر


Arif Aziz October 20, 2024
فوٹو: فائل

غزل
کیسے نہ کہا جائے اسے کام کا منظر
آنکھوں کی ضرورت ہے در و بام کا منظر
دل ہے ہی اندھیروں کا طلبگار سو اس میں
اترے گا بہر طور کسی شام کا منظر
جس جس میں نہ آئیں گے نظر مجھ کو مرے لوگ
میں نام اُسے دوں گا فقط نام کا منظر
تب جا کے ہی ہوتی ہے ان آنکھوں کی تسلی
جب اِن کو دکھاتا ہوں میں ہر گام کا منظر
سو بار جھپک لی ہیں اُسے دیکھتے آنکھیں
میں اب بھی سحرؔ کہہ دوں اُسے کام کا منظر
(اسد رضا سحر۔ احمد پور سیال)


۔۔۔
غزل
فقط وہی تو نصِ سرمدی سمجھتا ہے
کسی کی یاد کو جو بندگی سمجھتا ہے
کسی کو کتنے میسر ہیں لوگ دنیا میں
کوئی کسی کو مگر آخری سمجھتا ہے
اساسِ شعر ہے ملنا، بچھڑنا، غم، یادیں
سخن شناس ہے جو عاشقی سمجھتا ہے
فرات و علقمہ سے کیا غرض اسے ہوگی
جو ریگ زار کی تشنہ لبی سمجھتا ہے
وصال یار ہے کچھ اور ایسے قیس کو جو
خیال لیلیٰ کو موجودگی سمجھتا ہے
ہے ایسا شخص غنیمت جو بزمِ یاراں میں
کسی کا ہونا کسی کی کمی سمجھتا ہے
پرندے رختِ سفر باندھنے کے خواہاں ہیں
خزاں رسیدہ شجر بے رخی سمجھتا ہے
ملے تو پاشا ؔکے بارے بھی پوچھنا اس سے
جسے ہے دعوی کہ وہ شاعری سمجھتا ہے
(عمران حسین پاشا ۔فیصل آباد)


۔۔۔
غزل
جیون دھارا دیکھو گزرے یوں اپنا بس پیار کے ساتھ
بعد از مرگ بھی یاد کریں سب تم کو اک کردار کے ساتھ
موت کے ظالم پنجے سے یاں بچ پایا ہے کون بتا
چاہے جتنا اڑ لے پنچھی دل داروں کی ڈار کے ساتھ
ہجر میں ہمدم ہوتے ہیں تو ہوتے ہیں بس آہ و فغاں
پل پل کیسے کٹتے ہیں کچھ وقت بتا بیمار کے ساتھ
برا بھلا جو ہم کو بولو وقت وصال یہ غصہ کیوں
گہری خاموشی ڈستی ہے جاناں اس دیدار کے ساتھ
عشق میاں تم دوست بنے تھے پھر کیوں آنکھ میں آنسو ہیں
کتنا ظلم ہوا ہے دیکھو عشق ترے دلدار کے ساتھ
دیوانے نے سر پھوڑا تھا، جا، جا خون کے دھبے ہیں
مرنے تک تری یاد رہی تھی شائد اس نادار کے ساتھ
مایوسی کے کمرے میں اک لاش ہے لٹکی پنکھے سے
فرش پہ اک اسٹول پڑا ہے روتی ہوئی دیوار کے ساتھ
(عامرمعان۔ؔ کوئٹہ)


۔۔۔
غزل
کوئی بھی لمحہ سکون والا نہ دیکھا ہم نے
اندھیرے دیکھے کہیں اجالا نہ دیکھا ہم نے
اسی کو کہتے ہیں زندگانی، کوئی بتاؤ؟
کبھی بھی راحت بھرا نوالہ نہ دیکھا ہم نے
کبھی کہیں عورتیں اکٹھی اگر ہوئی ہیں
سکوت کا ان کے لب پہ تالا نہ دیکھا ہم نے
ہمیں ہے تسلیم دل پرانی حویلی جیسا
مگر کدورت کا اس میں جالا نہ دیکھا ہم نے
اسی کی رعنائیوں سے جیون میں رنگ اترے
وہ چاند ایسا کہ گرد ہالہ نہ دیکھا ہم نے
بچھڑنا اس کا بڑا ہی نقصان زندگی کا
یہ وہ خسارہ کہ پھر ازالہ نہ دیکھا ہم نے
فقط تھپیڑے تھے سخت لہجوں کے اور ہم تھے
کسی محبت کا نرم گالہ نہ دیکھا ہم نے
تمہیں تو سب کچھ کیا تھا واپس، مگر یہ یادیں
ہمیں ہی تڑپائیں گی غزالؔہ نہ دیکھا ہم نے
رشیدؔ الفت کے سخت موسم بہت ہی دیکھے
پڑا ستم کا جو ابکے ژالہ نہ دیکھا ہم نے
(رشید حسرتؔ۔کوئٹہ)


۔۔۔
غزل
تیرہ بختی نے دیا ساتھ ہمیشہ میرا
میرے نزدیک نہ آیا کبھی سایہ میرا
میں اگر چاہوں تو خود بھی نہ پہنچ پاؤں گا
کس بلندی پہ لگایا گیا خیمہ میرا
اپنی ہی قبر پہ اک عمر سے اِستادہ ہوں
میرے پیکر کو بنایا گیا کتبہ میرا
اب کہاں پیاس بجھانے کے لیے آئی ہو
ریت ہی ریت ہے اور خشک ہے چشمہ میرا
آج بھی نقش ہے ایّام کی پیشانی پر
کتنی صدیوں پہ ہے پھیلا ہوا لمحہ میرا
محفلِ شعر ہے یا مجلسِ گریہ سرمدؔ
میرے نغمات ہوئے جاتے ہیں نوحہ میرا
(سرمد جمال۔ لالیاں، پنجاب)


۔۔۔
غزل
جب شگوفے نکلنے پہ ڈٹ جائیں گے
پتھروں کے کلیجے بھی پھٹ جائیں گے
گر ہمیں ایک ہونے نہ دے گا سماج
ریل لائن پہ دونوں ہی کٹ جائیں گے
آپ کا کیا ہے ٗ دیں گے جنہیں گالیاں!
وقت پڑنے پہ اُن سے لپٹ جائیں گے
یہ انا ، یہ بھرم ، یہ سبھی چونچلے
وقت کے ساتھ ٹکڑوں میں بٹ جائیں گے
بس دعا کیجئے اور چپ بیٹھئے
فیض ؔکب مسئلے یوں نپٹ جائیں گے
(فیض الامین فیض کُلٹی، مغربی بنگال۔بھارت)


۔۔۔
غزل
اہلِ بینش کی نگاہ میں خود نمائی روگ ہے
بے وفائی روگ ہے غم کی دہائی روگ ہے
ہم بازارعشق میں آئے ہمیں معلوم ہوا
لب کشائی روگ ہے ناآشنائی روگ ہے
مدتوں سے اس نگر میں رہ رہے ہیں ہم جہاں
پارسائی روگ ہے شعلہ نوائی روگ ہے
چیخ کر کہتا تھا رسن ودار پہ کل ایک شخص
ظلم سہنا روگ، ظالم کی خدائی روگ ہے
جب ملے وہ اس پری پیکر سے کہنا نامہ بر
کج ادائی روگ ہے تیری جدائی روگ ہے
(اے آرنازش ۔فیصل آباد)


۔۔۔
غزل
سورج جو غروب ہو گیا ہے
اک صبح کا بیج بو گیا ہے
کیا فیصلہ حق کا وہ کرے گا
احساس ہی اس کا سو گیا ہے
تسبیحِ سخن میں ایک لمحہ
اشکوں کے گہر پرو گیا ہے
ہے کون سڑک پہ مرنے والا
جو آیا ہے اس پہ رو گیا ہے
کرتا ہوں تلاش قریہ قریہ
سایہ مرا آج کھو گیا ہے
حالت پہ مری کسی کا ہنسنا
نیزے کی انی چبھو گیا ہے
پانی نہیں، گزرا وقت اے نورؔ
دامن کے داغ دھو گیا ہے
(سید محمد نورالحسن نور۔ممبئی، انڈیا)


۔۔۔
غزل
اک سفر میں پے در پے لمحہ جاودانی کا
بین کرتا رہتا ہے، خوف لامکانی کا
یادگار لمحوں کا بوجھ ڈھوتا رہتا ہے
اک تخیّلی کردار، رائگاں کہانی کا
بانسری کی لے پر وہ جھومتی رہی آخر
رنگ میں اٹھا لایا، کوئے آسمانی کا
عمر کے پڑاؤ میں زندگی اجیرن ہے
کس نے لاد رکھا ہے، بوجھ ناگہانی کا
خودکشی کے لاحاصل آخری کنارے پر
لڑکھڑا گیا آخر، پلڑا زندگانی کا
گو سفر نہیں کرتا شور بھی خلاؤں میں
کون قتل کرتا ہے، خامشی کے بانی کا
(زاہد خان پہاڑپور۔ ڈیرہ اسماعیل خان)


۔۔۔
غزل
تری رضا ہے تو خوش ہیں کہ تو لڑے ہوئے رہ
یہ کب کہا تھا مگر آنکھ سے پرے ہوئے رہ
ابھی بہار نے آنا ہے، دیکھنا ہے تمہیں
ابھی سے سوکھ نہ اے گل ابھی ہرے ہوئے رہ
کسی بھی وجہ سے آنکھوں میں اشک مت لانا
کسی بھی خوف میں اے دوست مت پڑے ہوئے رہ
زمانے والے مرا کچھ بگاڑ سکتے نہیں
تو بے دھڑک میرے شانے پہ سر دھرے ہوئے رہ
ذرا سی بات پہ ارباب ؔسے یوں روٹھ نہیں
ذرا سی بات پہ بے جا نہ تو اڑے ہوئے رہ
(ارباب اقبال بریار۔واہنڈو، گوجرانوالہ)


۔۔۔
غزل
یہاں سجدہ گزاری کی فضا ہی مختلف ہے
جبینیں مختلف ہیں یا خدا ہی مختلف ہے؟
زمانے سے ہی سیکھا ہے فنِ دھوکا دہی، پر
کریں کیا جب ترا طرزِ جفا ہی مختلف ہے
کہ پہلی قید میں تو صرف پنجرہ ہی الگ تھا
پر اب کی بار تو اپنی سزا ہی مختلف ہے
تمہاری طرز پر ہم چاہتے تو جی بھی لیتے
مگر کیا ہے کہ اپنا سلسلہ ہی مختلف ہے
یہ لڑ کر ہار جانے پر بھی کب ہے ہار مانا
ترے سالار سے میرا سپاہی مختلف ہے
سو کس امید پر تجھ سے وفا کی آس رکھوں
مر ے خوں سے ترا رنگِ حنا ہی مختلف ہے
سب اک جیسے تھرکتے پھر رہے ہیں ایک دھن پر
مگر وہ مختلف تو یار کیا ہی مختلف ہے
کسے تعبیر کر ڈالوں، میں کس کو توڑ ڈالوں؟
مرا ہر خواب دوجے سے بڑا ہی مختلف ہے
اماوس کی بھی تاریکی نگل جاتا ہے سورج
مگر اپنے مقدّر کی سیاہی مختلف ہے
(اسیر ہاتف ؔ۔سرگودھا)


۔۔۔
غزل
انصاف کے تن پہ ہے یہ طاعون کی مانند
قانون یہاں کا نہیں قانون کی مانند
ان کی ہے یہ خواہش کہ خزانوں کو سمیٹے
رہتے یہاں کچھ لوگ ہیں قارون کی مانند
قسمت میں معالج بھی عطائی سا ملا ہے
دیتا ہمیں کچھ اور ہے معجون کی مانند
عشّاق کے حلقے سے ہے باہر مگر اک شخص
حلیے سے نظر آتا ہے مجنون کی مانند
(محبوب الرّحمان۔سینے،میاندم،سوات)


۔۔۔
غزل
کسی بھی غیر کو دل راز بتلایا نہیں کرتے
کسی بے درد کو ہر بات سمجھایا نہیں کرتے
کسی بھی شخص کی خاطراکیلا چھوڑ جاتا ہے
اسی کے در مرے دلبر کبھی جایا نہیں کرتے
بہاروں پر خزاؤں کا یہاں قبضہ ہمیشہ ہے
غمِ رُت میں مِلی نغمے کبھی گایا نہیں کرتے
جہاں ساقی نہ میخانہ، نہیں ہے جام اے جاناں
دلِ نادان اُس در پر یوں بہلایا نہیں کرتے
نجانے کس وجہ سے تم خفا ہو اے مرے ہمدم
جو مخلص یار ہوتے ہیں وہ تڑپایا نہیں کرتے
( مجید سومرو۔پنوں عاقل، سندھ)


سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔