حیدرآباد یونیورسٹی اپنے قیام کے سوا سال بعد بھی فعال نہ ہوسکی

بورڈ آف گورنر کی تشکیل اور کلیدی اسامیوں پر تقرریاں نہ ہونے سے تعلیمی سیشن شروع نہ ہوسکا


ویب ڈیسک October 22, 2024

وفاقی حکومت کے زیر اہتمام سندھ میں ایک ایسے اعلیٰ تعلیمی ادارے کا انکشاف ہوا ہے جو بیوروکریسی کے روایتی تاخیری حربوں کے سبب سوا سال سے غیر فعال ہے۔

حیدرآباد انسٹیٹیوٹ فار ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنٹ سائنسز وفاقی چارٹر کے بعد قائم ہونے والا وہ ادارہ ہے جس میں سوا سال تک بورڈ آف گورنرز ہی تشکیل نہیں دیا جاسکا جس کی وجہ سے اس ادارے میں مستقل بنیادوں پر افسران اور اساتذہ کی تقرریاں ہوسکیں نہ ہی اب تک تعلیمی سیشن شروع ہوسکا جبکہ کلیدی اسامیوں پر تقرریاں نہ ہونے سے یونیورسٹی کی زمین پر عمارت کی تعمیر سے متعلق ابتدائی امور تک طے نہیں ہوسکے ہیں۔

یہ ایسا ادارہ ہے جس میں سوا سال سے صرف ادارے کے سربراہ ریکٹر ہی مستقل بنیادوں پر تعینات ہیں جبکہ باقی تقریباً تمام ہی ملازمین یا افسران جز وقتی یا پھر پروجیکٹ کے تحت کنٹریکٹ پر کام کررہے ہیں جبکہ اب تک ایک بھی استاد مستقل بنیادوں پر اس ادارے سے وابستہ نہیں ہوسکا ہے۔

ادارے میں کوئی مستقل رجسٹرار، ڈائریکٹر فنانس اور کنٹرولر آف ایکزامینیشن اور پروجیکٹ ڈائریکٹر تک موجود نہیں، اس بات کا انکشاف کچھ روز قبل سپریم کورٹ آف پاکستان میں سرکاری وفاقی و صوبائی جامعات کی صورتحال پر عدالت کی جانب سے ایک تفصیلی سماعت کے موقع پر ہوا ہے۔

واضح رہے کہ اس ادارے کا چارٹر قومی اسمبلی سے تقریباً تین برس قبل منظور ہوچکا تھا تاہم گزشتہ برس 21 جولائی کو چیئرمین انٹرمیڈیٹ بورڈ کراچی کو چار سال کے لیے اس ادارے کا ریکٹر مقرر کیا گیا جس کے بعد حیدرآباد انسٹیٹیوٹ فار ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنٹ کے ریکٹر ڈاکٹر سعید الدین کی جانب سے بورڈ آف گورنرز کی تشکیل کے لیے مختلف ناموں پر مشتمل پینل منظوری کے لیے ایوان صدر کو بھجوایا گیا۔

"بی او جی" کی تشکیل کے لیے پینل کی فائل " اعلی تعلیمی کمیشن، وفاقی وزارت تعلیم ، وزیر اعظم ہائوس اور ایوان صدر " میں گھومتی رہی اور ازاں بعد اس فائل کو ایوان صدر میں ہی محفوظ کرلیا گیا، اس دوران ریکٹر و دیگر ملازمین صرف تنخواہیں لیتے رہے لیکن حیدرآباد کے طلبہ یہاں سے اپنا تعلیمی سفر شروع نہ کرسکے۔

"ایکسپریس " نے جب اس سلسلے میں وفاقی سیکریٹری تعلیم محی الدین وانی سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ "دو روز قبل چانسلر سیکریٹریٹ کی جانب سے بی او جی کے پینل کی منظوری دے دی گئی ہے، ہم نوٹیفکیشن جاری کرچکے ہیں اور اب ریکٹر فوری طور پر تقرریاں شروع کرسکتے ہیں۔

انہوں نے اس بات کو خود تسلیم کیا کہ بی او جی کی عدم تشکیل سے تقرریوں میں رکاوٹ تھی" یاد رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں دوران سماعت جب یہ معاملہ زیر بحث ہے آیا تو اس پرچیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے متعلقہ افسران کی سرزنش کی گئی تھی اور یہاں تک پوچھا گیا تھا کہ آخر ایوان صدر کتنا دور ہے جو آپ اس سمری کی منظوری نہیں کراسکے۔

علاوہ ازیں جب "ایکسپریس " نے حیدرآباد انسٹیٹیوٹ فار ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنٹ کے ریکٹر پروفیسر ڈاکٹر سعید الدین سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ "چارج سنبھالنے کے بعد 24 جولائی 2023 کو ہی انہوں نے بی او جی کی تشکیل کے لیے سمری متعلقہ دفتر میں بھجوادی تھی، کچھ عرصے بعد سمری واپس آئی تھی جس میں کچھ سوالات کیے گئے تھے، ان سوالات کے جوابات کے ساتھ سمری ایک بار پھر اس روٹ سے ایوان صدر بھجوادی گئی تھی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایچ ای سی کی جانب سے دو شعبوں کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ ویئر انجینئرنگ میں 100/100 نشستوں پر داخلے شروع کرنے کے لیے این او سی مل گئی ہے جس کے بعد داخلوں کے لیے درخواستیں بھی طلب کی گئی ہیں، ہم فیکلٹی کے لیے امیدواروں کے انٹرویوز بھی کرچکے ہیں لیکن بی او جی تشکیل نہ ہونے سے اس کی منظوری نہیں ہوسکی۔

ادھر " ایکسپریس" کو موصولہ سمری کے مطابق بی او جی کے لیے جس پینل کی منظوری سوا سال کی غیر ضروری تاخیر کے بعد حال ہی میں دی گئی ہے اس میں انجینیر،/ٹیکنالوجسٹ کی نشست پر مہران یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر عبدالقدیر راجپوت، ایجوکیشن/انڈسٹری/سائنس/بزنس کی کیٹگری کے لیے این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش لودھی، سابق ڈی جی کالجز سندھ ڈاکٹر ناصر انصار، سابق نگراں وزیر تعلیم سندھ رانا انصار جبکہ تیسری میں انڈسٹریل اینڈ بزنس سیکٹر سے حیدرآباد چیمبر آف کامرس کے صدر عدیل صدیقی اور اسی چیمبر کے نائب صدر اویس اقبال خان کے ناموں کی منظوری دی گئی ہے۔

قابل ذکر امر یہ ہے کہ اس یونیورسٹی کے لیے وفاقی حکومت نے حیدرآباد نے 100 ایکڑ اراضی مختص کی ہے جہاں تاحال تعمیرات شروع ہی نہیں ہوسکی ہیں یونیورسٹی فی الحال سندھ حکومت کی جانب سے دیے گئے یوتھ ہاسٹل کی عمارت میں عارضی طور پر قائم یے اور یہیں سے سیشن بھی شروع ہونا ہے بتایا جارہا ہے کہ اب تک یونیورسٹی کی عمارت کا نقشہ اور ڈرائنگ بھی تیار نہیں ہوپائی ہے کیونکہ یونیورسٹی میں پروجیکٹ ڈائریکٹر ہی موجود نہیں جو حیدرآباد میں موجود 100 ایکڑ اراضی پر عمارت کی تعمیر کے لیے ابتدائی کام شروع کرسکے۔

ایچ ای سی کے ذرائع نے " ایکسپریس " کو بتایا کہ اس یونیورسٹی کا پروجیکٹ سن 2017 میں شروع ہوا تھا اور 1.9 بلین روپے کا پی سی ون تیار ہوا تھا تاہم منصوبے پر کچھ بھی کام نہیں ہوسکا اب 2024 آچکا ہے اور مذکورہ پی سی ون کے تحت یونیورسٹی کی عمارت کی تعمیر ممکن نہیں رہی ہے یونیورسٹی انتظامیہ نے 4.8 بلین روپے کا ایک نیا پی سی ون بناکر ہمیں (ایچ ای سی) کو بھجوایا ہے جو وفاقی حکومت کو پیش کیا جانا ہے تاہم س پر بھی کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔

" ایکسپریس" نے اس معاملے پر چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹرمختاراحمد سے رابطہ کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس یونیورسٹی کو کیوں نظر انداز کیا جارہا ہے تاہم وہ مسلسل رابطے سےبگریز کرتے رہے انھیں ووٹس ایپ بھی کیا تاہم کوئی جواب موصول نہیں ہوا کئی روز کی کوششوں کے بعد ان کا فون کسی دوسرے افسر کی جانب سے ریسیوو کیا گیا اور بتایا گیا کہ وہ ایک ہروگرام میں مصروف ہیں۔ واضح رہے کہ چیئرمین ایچ ای سی کو ٹرینیوور ختم ہونے کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع دی گئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔