صبر ہی ہمارا درمان ہے

ﷲ تعالیٰ نے مومنوں، مسلمانوں اور نیکوکاروں کو ایسے مواقع کے لیے ایک عظیم تحفہ ’’صبر‘‘ عطا کیا ہے۔


احتشام الحسن January 27, 2017
حضور اکرمؐ سے پوچھا گیا کہ ایمان کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: صبر اور نرمی کرنا۔ فوٹو: فائل

ﷲ رب العزت نے فطرتِ انسانی میں بہت سی چیزیں ودیعت کی ہیں، جن کو انسان محسوس و غیر محسوس طور پر استعمال کرتا ہے اور انہی کے ذریعے پروان چڑھتا ہے اور اپنی منزل کی طرف گام زن رہتا ہے۔

انسان فطرتاً یہ چاہتا ہے کہ اس کی زندگی سکون اور چین سے گزرے اور وہ ہمہ تن راحت و آرام میں رہے، اس کے لیے وہ محنت کرتا ہے، کوشش اور ریاضت و عبادت کرتا ہے۔

انسان ہر وقت اسی جستجو میں رہتا ہے کہ وہ دنیا میں بھی خوش و خرم رہے اور آخرت میں بھی خطرات سے پاک رہے۔ انسان اپنی دھن میں مگن رہتا ہے مگر اﷲ کا امر کبھی ٹلتا نہیں ہے اور اس کی سنت کبھی بدلتی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے مختلف اوقات میں انسان پر کوئی غم، حادثہ، پریشانی، رنج، الم اور کوئی غیر ضروری، غیر مناسب اور غیر متوقع واقعہ پیش آجاتا ہے۔ یہ ناقابل برداشت واقعات کبھی بلندی درجات، کبھی بدیوں کو نیکیوں میں بدلنے، کبھی آزمائش اور کبھی عذاب کے لیے رونما ہوتے ہیں۔ ﷲ تعالیٰ نے مومنوں، مسلمانوں اور نیکوکاروں کو ایسے مواقع کے لیے ایک عظیم تحفہ ''صبر'' عطا کیا ہے۔ صبر کرنے سے دنیا میں راحت اور آخرت میں نعمت سے نوازا جاتا ہے۔

ﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صبر کی تلقین کرتے ہوئے بے شمار انعامات کا وعدہ کیا ہے اور اس کا اجر بے حساب بتایا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے صبر کرنے والے کو کرم، سلامتی اور رحمت کی خوش خبری دی ہے کہ یہی لوگ فضل والے اور ہدایت یافتہ ہیں اور ان کو بڑھا چڑھا کر بدلہ دیا جائے گا۔

ﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں : '' خوش خبری دے دو ان صبر کرنے والوں کو جن پر کوئی مصیبت یا سختی آپڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اﷲ کے ہیں اور ہمیں واپس اسی کی جانب لوٹ جانا ہے۔ ان پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی اور رحمت ہے اور وہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔'' ( البقرۃ )

صبر اچھی صفت، عمدہ عمل اور مضبوط رسی ہے، جس کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کی جاسکتی ہے۔ صبر، اخلاص اور یقین کی علامت ہے۔ صبر ایک ایسی عبادت ہے جس کا انجام سعادت ہے اور اس کا اجر بے حساب ہے۔

جب مشرکین مکہ نے تکالیف اور اذیتوں کی انتہا کردی تو اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کو صبر کی تلقین کی اور بتا دیا کہ صبر بلند ہمت لوگوں کا کام ہے: '' یقینا اہلِ کتاب اور مشرکین کی طرف سے آپ کو بہت زیادہ تکلیف پہنچے گی، پس اگر آپ نے صبر کیا اور تقویٰ اختیار کیا تو یہ بلند ہمتی والے کاموں میں سے ہے۔'' (آل عمران)

ﷲ تعالیٰ نے صابرین کی ہمت بڑھاتے ہوئے ان کی معیت کا اعلان کیا اور فرمایا: '' صبر کرو، بے شک اﷲ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔'' ( انفال )

صبر حقیقت میں تمام خصوصیات کی لگام اور تمام فضائل کا مرجع ہے۔ اسی کے ذریعے دنیا و آخرت میں بلند مرتبہ اور عالی مقام پایا جاسکتا ہے۔ اسی کے نام سے موسوم کر کے جنت میں جنتیوں کو پکارا جائے گا کہ : ''تمہارے صبر کرنے کی وجہ سے تم پر سلام ہو اور تمہارا ٹھکانا کیا ہی اچھا ہے۔''

حضرت سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں: '' ہر چیز کا کوئی نہ کوئی پھل اور نتیجہ ضرور ہوتا ہے اور صبر کا پھل اور نتیجہ کام یابی ہے۔'' مصیبت اور تکلیف میں صبر اور نرمی کرنا سعادت اور اچھے اخلاق کی علامت اور نشانی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کو اﷲ تعالیٰ نے عجیب و غریب انداز میں آزمایا اور آپؑ نے صبر کا مظاہرہ کیا۔ چناںچہ اﷲ نے ان کو ستاروں کے ذریعہ آزمایا انہوں نے صبر کیا، چاند کے ذریعے آزمایا، انہوں نے صبر کیا، سورج کے ذریعے آزمایا، انہوں نے صبر کیا اور بیٹے کو ذبح کا حکم دے کر آزمایا، انہوں نے پھر بھی صبر کیا۔

اﷲ تعالیٰ نے وضاحت کے ساتھ صبر کی فضیلت بیان فرمائی کہ : '' صبر اور نماز کے ذریعے مدد طلب کرو، بے شک اﷲ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔'' (احقاف )

اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم مدد چاہتے ہو تو صبر کرو اور نماز پڑھو اور پھر فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ اﷲ نماز پڑھنے والوں کے ساتھ ہے۔ اس آیت سے نماز کی فضیلت کو کم کرنا مقصود نہیں ہے بل کہ یہ بتانا مقصود ہے کہ نما زکی فضیلت تو اپنی جگہ تسلیم شدہ ہے اسی طرح صبر کی فضیلت بھی کوئی کم نہیں ہے۔ اﷲ تعالیٰ خود صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور جس کو اﷲ کی معیت مل گئی تو اس کو نجات اور کام یابی کے لیے اور کس پروانے کی ضرورت ہے۔۔۔۔ ؟

حضور اکرمؐ نے ایک مرتبہ انصار کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ: '' میرے پاس کوئی مال و دولت نہیں ہے، نہ ہی میں نے تم سے کچھ چھپا کر رکھا ہے۔ جو عفت طلب کرنا چاہتا ہے وہ اﷲ تعالیٰ سے عفت طلب کرے، جو مدد طلب کرنا چاہتا ہے، وہ اﷲ تعالیٰ سے مدد طلب کرے اور جو شخص صبر کرے اﷲ تعالیٰ اسی کو صبر کی توفیق عطا فرماتا ہے اور کسی کو بھی صبر کے علاوہ کوئی خیر کی چیز نہیں دی گئی۔''

( رواہ المسلم کتاب الجنائز، رقم الحدیث )

حضور اکرمؐ سے پوچھا گیا کہ ایمان کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: صبر اور نرمی کرنا۔

(ادب الدنیا والدین )

حضرت علی ؓ فرماتے ہیں: '' صبر ایک سواری ہے جو کبھی جھکتی نہیں اور قناعت ایک تلوار ہے جو کبھی ٹوٹتی نہیں۔''

حضور اکرم ارشاد فرماتے ہیں: '' صبر مصیبت کو چھپاتا ہے اور سختیوں میں مدد دیتا ہے''

''صبر ایک روشنی ہے اور اس کے ذریعے کام یابی متوقع ہے۔''

ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ '' سب سے افضل عبادت سختی اور تنگی میں صبر کرنا ہے۔''

حضرت جنید بغدادیؒ سے پوچھا گیا کہ: صبر کسے کہتے ہیں۔۔۔ ؟ جواب دیا کہ '' بغیر کسی ناگواری کے ایک کڑوا گھونٹ پی جا نا۔''

جب حضرت یعقوب ؑ نے اپنے بیٹوں کی بات سنی تو انہوں نے صبر کیا اور اﷲ تعالیٰ سے مدد طلب کی۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کے سچے صبر اور مدد طلب کرنے پر ان کو اس کا بدلہ دیا کہ ایک خوش خبری دینے والا قمیض لے کر آیا اور ان کے چہرے پر ڈال دی تو ان کی بینائی لوٹ آئی اور اﷲ تعالیٰ نے اتحاد و اتفاق کے ساتھ ان کے بیٹوں کو جمع کردیا۔

حضرت ایوبؑ کو صبر کا بدلہ یہ دیا گیا کہ ان کی تکالیف کو دور کر دیا گیا اور ان کو پہلے کی مثل اولاد بھی لوٹا دی گئی بل کہ اس کے ساتھ رحمت اور فضل بھی عطا کیا گیا۔ ''جب ایوبؑ نے اﷲ کو پکارا کہ: اے اﷲ ! مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو بہت رحم کرنے والا ہے۔ میری دعا قبول فرما، پس ہم نے تکلیف دور فرما دی اور اس کو اولاد لوٹا دی اور اس کے ساتھ ساتھ رحمت بھی عطا فرمائی، یاد کرو میرے بندے کو یہ ان کو دنیا میں دیا گیا اور آخر میں ان کے لیے بڑے درجات ہیں۔'' (الانبیاء)

بے صبری صبر سے مشکل ہے، اس لیے کہ بے صبری میں تھکن بھی ہے اور گناہ بھی ہوتا ہے اور صبر میں راحت و آرام بھی ہے اور ثواب بھی، صبر کے مقام پر صبر ہی بہتر ہے، کیوں کہ بے صبری سے مصیبت اور بڑھ جاتی ہے۔ جو صبر کرتا ہے نجات پالیتا ہے، جو صبر نہیں کرتا وہ خلاصی کا راستہ نہیں پاتا۔

صبر بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، ان میں سے ایک معنی ہوائے نفس کے مقابلے میں اﷲ کے حکم پر مستقل اور ثابت قدم رہنا ہے۔ انسان ہوش سنبھالتا ہے تو اس پر دو مخالف لشکر مسلط اور حملہ آور ہو تے ہیں، ہر لشکر اس کوشش میں ہوتا ہے کہ انسان پر اس کا رنگ غالب آجائے، ایک لشکر خدائی ہوتا ہے، اس کے شاہ سوار فرشتے اور عقل و شریعت ہیں، ان کی کوشش اور جدوجہد یہ ہوتی ہے کہ انسان ہدایت پر قائم رہے، دینِ اسلام اور شریعت محمدیؐ پر ثابت قدم رہے۔ دوسرا لشکر شیطان اور اس کے حواریوں کا ہے۔

جن کی کوشش ہوتی ہے کہ انسان خواہشات کا پجاری اور مادہ پرست بن جائے اور ہدایت سے کوسوں دور بھاگے۔ اس موقع پر انسان کو غور و فکر اور بصیرت سے کام لینا پڑے گا۔ انسان میں کیوں کہ متضاد صفتیں موجود ہیں یعنی خواہشات نفسانیہ بھی ہیں اور بھلا بُرا سمجھنے کا شعور بھی اور عقل و فطرتِ سلیمہ بھی موجود ہے، پس ایک کو مغلوب اور دوسرے کو غالب کرنا ہی صبر ہے۔ دل نہ چاہتے ہوئے بھی صبر کا دامن پکڑ کر نیک اعمال کرے اور معصیت کے کاموں سے دور رہے۔

آج معاشرے پر ہر طرف کالی گھٹا چھائی ہوئی ہے، ہر طرف فتنہ و فساد برپا ہے، کوئی علاقہ، کوئی شہر، کوئی بستی، کوئی کوچہ، کوئی قبیلہ، کوئی خاندان، کوئی گھر اور نہ ہی کوئی جماعت ایسی ہے جس میں لڑائی جھگڑا نہ ہوا۔ حتیٰ کہ ماں باپ، بیٹا بیٹی، بہن بھائی، میاں بیوی، استاد شاگرد، مالک نوکر سب ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑی بڑی لڑائیاں بن جاتی ہیں، ذرا سی بات پر پوری زندگی کے لیے بغض و عداوت اور غیض و غضب سے سینے بھر جاتے ہیں۔

ایک بول پر ساری زندگی کا رشتہ ختم اور ساری زندگی کے لیے ناتا توڑ دیا جاتا ہے۔ صد افسوس خونی رشتوں کو بھی نہیں دیکھا جاتا۔ ان سب باتوں کی اصل وجہ حد سے بڑھ کر کسی پر اعتماد کرنا ہے اور اس سے ایسی توقعات رکھنا کہ اس کو انسانوں کی فہرست سے نکال کر فرشتوں کی قطار میں داخل کر دینا ہے۔ جب وہ توقعات پر پورا نہیں اترتا اور اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے تو ہم آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں لڑائی جھگڑوں سے دور رہنے کے لیے صبر کا دامن تھامنا چاہیے اور جلد بازی اور بے صبری سے کام نہیں لینا چاہیے۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہمہ وقت صبر کی سواری پر سوار رہیں۔ مصائب، تکالیف، پریشانیاں اور غم آتے رہیں گے مگر ہر موقع پر ہمارا درمان صبر ہی ہے، اﷲ تعالیٰ ہمیں ہر حال میں صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں