جانب پردیس

اطہر قادر حسن  بدھ 26 جون 2024
atharqhasan@gmail.com

[email protected]

پطرس بخاری بے بدل ادیب اور مزاح نگار تھے ، وہ پیدا تو پشاور میں ہوئے لیکن زندگی لاہور میں بسر کی، وہ لاہور سے عشق کرتے تھے، شاید اسی لیے انھوں نے نیویارک میں قیام کے دوران صوفی تبسم کے نام ایک خط میں یہ پوچھا کہ کیا لاہور اب بھی مغلوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہے ؟ دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ لاہوراپنے عاشقوں کے اعصاب پر ایسا سوار ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں کہیں بھی ہوں، انھیں اپنے محبوب شہر کی یاد ستاتی رہتی ہے۔

لاہور میں بسنے والے کسی مجبوری کی وجہ سے لاہور چھوڑ جائیں لیکن لاہور انھیں نہیں چھوڑتا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد جو لوگ لاہور سے مجبوری کی حالت میں ہجرت توکر گئے لیکن لاہور ان کے اندر سے نہ نکل سکا۔ مشہور افسانہ نگار کرشن چندر بھی لاہور کی یاد میں آہیں بھرتے رہے احمد ندیم قاسمی کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ لاہورکا ذکر تو کجا اس محبوب شہر کے بارے میں سوچتا بھی ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔

مشہور ادیب اے حمید لاہور کو طلسم و اسرار کی الف لیلہ سے تشبیہ دیتے تھے۔ لیکن یہ وہ لاہور تھا جو برصغیر میں علم و ادب اور ثقافت کا مرکز تھا۔ اس شہر میں ایسی نابغہ روزگار شخصیات بستی تھیں جن کا ڈنکا پورے ہندوستان، لندن، برلن اور روم تک بجتا تھا ۔ سنتے ہیں کہ ہر شام کو لاہور کی مرکزی شاہراہوں پر چھڑکاؤ کیا جاتا تھا۔

قارئین یہ جانتے ہیںکہ میرے والد محترم عبدالقادر حسن کوہستان نمک کے پہاڑوں سے ہجرت کر کے تعلیم اور روز گار کے لیے لاہور آئے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ یوں میں بھی لاہور میں ہی رہا ہوں۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ لاہور شہر نے مجھے پہچان دی، مجھے قبول کیا کیونکہ مشہور ہے کہ یہ شہر ہر ایک کو قبول نہیں کرتا۔ اس شہر نے مجھے دوست احباب کے ایک وسیع حلقہ سے نوازا۔ گو اب لاہور میں ماضی کی طرح ادبی بیٹھکیں نہیں رہیں اور نہ ہی وہ لوگ رہ گئے جن کے دم قدم سے یہ بیٹھکیں آباد رہتی تھیں۔ ادب نوازشہر سے سیاست بھی روٹھ گئی اور سیاسی ڈیرے یا تو مفقود ہو گئے یا پھر اقتدار کے شہر اسلام آباد منتقل ہو گئے ۔

اس طویل تمہید کا مقصد یہ ہے کہ میری ایک اور ہجرت کا وقت آن پہنچا ہے ، اب یہ ہجرت اسلام آباد کو ہے جہاں پر مجھے اپنی پیشہ وارانہ ذمے داریاں ادا کرنی ہیں تا کہ ہوشرباء مہنگائی کے اس دور میں دال دلیہ چلتا رہے۔

لاہور میںبطور افسر تعلقات عامہ پی آئی اے ماہ و سال گزرتے رہے، قومی ائر لائن کے نشیب و فراز کو میڈیا کے دوستوں کے ساتھ مل جل کر کام چلتا رہا اور جس طرح میڈیا کے دوستوں نے میرا ساتھ نبھایا میں ہمیشہ ان کا ممنوں رہوں گا ۔میری حتی الوسع یہ کوشش رہی کہ پاکستان بھر میں پی آئی اے کے توسعت سے جن دوستوں کے ساتھ تعلق استوار ہوا ،ان کی بہتر رہنمائی اور خدمت کروں ۔

ملازمت کے دوران جس دفتر میں آپ کا ایک طویل وقت گزرتا ہے، اس دفتر کے درو دیوار آپ سے اور آپ ان سے مانوس ہوجاتے ہیں ۔ میرے دفتر کے دوستوں نے اس طویل رفاقت میں میرا ساتھ نہایت خندہ پیشانی سے دیا۔ شعبہ تعلقات عامہ کے وہ ساتھی جو ریٹائر ہو گئے ہیں جن سے میں نے سیکھا، ان میں کراچی میں چوہدری بشیر صاحب، یوسف خان صاحب، مرحوم جاوید صاحب ، حاجی طالب صاحب جو لاہور کے اخبار نویسوں کی خدمت کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہوتے تھے او محترمہ یاسمین ہارون صاحبہ جن کے ساتھ دفتر ی تعلق کے علاوہ میرے والد کے دیرینہ خاندانی تعلقات بھی تھے۔

ہم دونوں نے اپنے بزرگوں کے اس خوبصورت رشتے کو کامیابی سے نبھایا۔ میں خالد بٹ مرحوم کا خصوصی ذکر کرنا چاہوں گا جو جنرل مینیجر تعلقات عامہ رہے، ان کی رہنمائی ہمیشہ شامل حال رہی۔سید سلطان حسن مرحوم سے بھی سیکھنے کا موقع ملا۔ اﷲ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ میری پی آئی اے کے ساتھ طویل رفاقت کا سفر ابھی جاری ہے اور بشرط زندگی ابھی ایک دہائی باقی ہے لیکن لاہور سے اب کوچ کا وقت ہوا چاہتا ہے ۔

میری اگلی ذمے داری بابوؤں اور اقتدار کی غلام گردش والے خوبصورت شہر اسلام آباد میں ہے۔ وہاں بھی اپنے صحافی دوستوں کی خدمت کا نیا سفر شروع ہو گا۔ نیا شہر نئی ذمے داریاں ہیں لیکن میری خوش قسمتی ہے کہ وہاں میرے اعلیٰ افسران کمال مہربان ہیں اور میرے منتظر ہیں ۔ یعنی اجنبیت والا معاملہ ہر گز نہیں ہے البتہ لاہور سے بچھڑنے کا قلق ضرور ہے کیونکہ داتا کی نگری میں زندگی بسر کرنے کا اپنا ہی نشہ اور مزہ ہے۔ دوست احباب ہیں، رشتہ دار ہیں جن سے زندگی بھر کا رشتہ ہے، وہ سب فکر مند ہیں کہ ملاقاتیں اور محفلیںکیسے ہوں گی۔ ان کو یقین دلایا ہے کہ ہر ہفتہ لاہور کے درشن ہوں گے۔

میری زوجہ محترمہ نے گزشتہ چوبیس برس مجھے برداشت کیا ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا ایک ہی مقصد بچوں کی تعلیم اور تربیت کا رکھااور اس کردار کو وہ بخوبی نبھا رہی ہیں۔ میرا بیٹا نوشیروان لمز سے گریجوایشن، بیٹی ضحی سی ایم ایچ سے ڈینٹل سرجری اور سب سے چھوٹی حلیمہ سعدیہ میٹرک کے رزلٹ کا انتظار کر رہی ہے۔ میں ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ میری پیشہ وارانہ مصروفیات میں میرا ساتھ دیتے ہیں۔

پی آئی اے نے معاشرے میں مجھے شناخت دی۔ دنیا بھر کا سفر کیا ، حج کیے ، عمرے کیے یہ سب کچھ پی آئی اے کی بدولت کی ممکن ہوا ،ورنہ لاہور سے دوردراز وادی سون کے پہاڑوں میں گھرے ایک گاؤں کا نوجوان کہاںاس قابل ہوتا کہ وہ اﷲ اور اس کے نبیﷺکے گھر کی باربار سعادت کا شرف حاصل کرتا۔ گو کہ پہلی بار عمرہ کی سعادت والد محترم کے ساتھ پی آئی اے کی ملازمت میں آنے قبل ہی حاصل ہو چکی تھی لیکن اس کے بعد اپنی والدہ اور اہل خانہ کے ساتھ حج اور عمرہ کی سعادت پی آئی اے کی بدولت ہی ممکن ہوئی۔ جاوید جدون کہتے ہیں۔

رزق کی خاطر رواں ہیں جانب پردیس ہم

کون جاتا ہے وگرنہ اپنے پیارے چھوڑ کر

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔