پھر صحافی قتل ہوا…

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعرات 27 جون 2024
tauceeph@gmail.com

[email protected]

افغانستان کی سرحد سے متصل لنڈی کوتل میں صحافی خلیل جبران کا قتل آزادئ صحافت پر شب خون کے مترادف ہے۔ خیبر پختون خوا پولیس کے مطابق خیبر ضلع کی تحصیل لنڈی کوتل میں پشتو زبان کے ٹی وی چینلز کے نمایندہ خلیل جبران ایک عشائیہ میں شرکت کے بعد ایک گاڑی میں واپس سلطان خیل کے علاقہ مرتبا سے گزر رہے تھے کہ نامعلوم افراد نے نشانہ لگا کرگولیوں کی بوچھاڑکردی۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دو مسلح افراد نے خلیل جبران کو کار سے گھسیٹ کر نکالا اور بے تحاشا گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ حملہ آور اطمینان سے اپنا مشن مکمل کرکے محفوظ ٹھکانوں میں روپوش ہوگئے۔ فائرنگ کے نتیجے میں جبران کے ایک ساتھی جو وکیل ہیں وہ بھی زخمی ہوئے۔ پولیس نے جبران کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے ڈسٹرکٹ اسپتال بھیج دی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق خلیل جبران کے جسم میں 18گولیاں لگی تھیں۔

اس سانحے کا افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ خلیل جبران کی لاش ایک گھنٹے تک سڑک پر پڑی رہی۔ علاقہ کے مکین حملہ آوروں سے اتنا خوفزدہ تھے کہ کسی فرد کو لاش اٹھانے کی جرات نہ ہوئی۔ پولیس ایک گھنٹے بعد جائے وقوع پر پہنچنے میں کامیاب ہوئی جس کے بعد خلیل جبران کی لاش ڈسٹرکٹ اسپتال منتقل ہوسکی۔ پولیس حکام دعویٰ کر رہے ہیں کہ پولیس کی ٹیم اطلاع ملتے ہی جائے وقوع پر پہنچ گئی تھی۔

50 سالہ خلیل جبران کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا ۔ اس کے والدین بچپن میں انتقال کر گئے تھے، خلیل کے قریبی رشتے داروں نے ان کی مدد کی۔ خلیل کے پسماندگان میں ایک بیوہ اور چھ بچے شامل ہیں۔ غیر ملکی ریڈیو کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ خلیل جبران کی رپورٹنگ سے کئی مسلح گروہ پریشان تھے۔ ان پر ماضی میں دو دفعہ قاتلانہ حملے ہوئے تھے۔ جن کی ایف آئی آر بھی تھانوں میں درج ہوئی تھی مگر پولیس کسی بھی حملے میں ملوث افراد کو گرفتار نہ کرسکی۔ خیبر پختون خوا میں بدامنی کی صورتحال ہے اور اس صورتحال کا براہِ راست نشانہ صحافی، سیاسی اور سماجی کارکن بن رہے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی ہر سال ملک بھر میں بنیادی انسانی حقوق کی زبوں حالی پر ایک کتاب شایع کرتی ہے۔ گزشتہ ایک سال کی صورتحال کے بارے میں ایچ آر سی پی کی سالانہ رپورٹ میں آزادئ صحافت کی مخدوش صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گزشتہ سال صحافی مسلسل حملوں کا شکار رہے۔ 8 مارچ کو کوہاٹ میں نجی ٹی وی کے رپورٹر یاسر شاہ پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا۔ یاسر شاہ کو زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا۔

اکتوبر میں نامعلوم افراد نے پھر یاسر شاہ پر فائرنگ کی مگر یاسر شاہ بال بال بچ گئے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اپریل کے مہینے میں بنوں میں ایک صحافی گوہر وزیر کو نامعلوم افراد نے اغواء کر کے بیہمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ گزشتہ سال بھی صحافیوں کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ ختم نہ ہوا۔ کبھی نامعلوم افراد صحافیوں کو مخصوص بیانیہ کی ترویج کے لیے دباؤ ڈالتے رہے، کبھی دہشت گرد گروپ یہ فریضہ انجام دیتے رہے۔

گزشتہ 24 برسوں کے دوران کئی صحافی نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہوئے مگر حیات اللہ سے لے کر خلیل جبران تک کسی کے قاتلوں کو سزا نہیں ہوئی۔ اب ان اطلاعات میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ طالبان کے مسلح گروہوں نے سابقہ قبائلی علاقے میں اپنی متوازی حکومت قائم کی ہوئی ہے اور اچھے طالبان کی تنظیموں نے شہروں میں دفاتر قائم کیے ہیں۔ برے طالبان سیکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں، سرکاری تنصیبات اور لڑکیوں کے اسکولوں کو نشانہ بناتے ہیں اور بعض صحافی تو یہ کہتے ہیں کہ ان علاقوں میں 8 بجے کے بعد برے طالبان کی حکمرانی ہوتی ہے۔

اس کے ساتھ دہشت گردی کے بڑھنے کی وجہ سے اقلیتوں اور دوسرا سیاسی بیانیہ رکھنے والے افراد کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ صحافیوں ، سیاسی کارکنوں اور سوشل ایکٹوسٹ کے خلاف حملوں میں انتہا پسند گروہ ملوث ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق شمالی وزیرستان بنوں، کڑک، ڈیرہ اسماعیل خان اور خیبر اضلاع میں طالبان نے تقریباً کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

کے پی کے ضلع بنوں کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ غلام خان چوکی اور اطراف کے علاقوں میں دن بھر تو پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے اہلکار متحرک نظر آتے ہیں۔ ان اہلکاروں نے اس علاقہ میں چوکیاں بھی قائم کی ہوئی ہیں، مگر رات کو ان چوکیوں پر طالبان کا قبضہ ہوتا ہے۔ طالبان نے اس پورے علاقے میں اپنی متوازی عدالتیں قائم کی ہوئی ہیں۔ اچھے طالبان نے نوجوانوں کے بڑے بال رکھنے پر پابندی عائد کردی ہے۔

صاحبِ ثروت افراد اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کا شکار ہوئے۔ لوٹنے والے افراد کو کابل کے نمبروں سے ٹیلی فون کال موصول ہوتی ہے۔ ایک رپورٹر کا کہنا ہے کہ جے یو آئی کے وزیر اعلیٰ اکرام خان درانی نے شہر میں خواتین کا ایک پارک تعمیر کیا تھا مگر انتہا پسند اس خواتین پارک کی مخالفت کرتے تھے، بعد ازاں اس لیڈیز پارک کو بند کرا دیا گیا۔

ان انتہا پسندوں کا نشانہ خواتین کے اسکول بن رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے بعض جنگجوؤں نے وزیرستان، بنوں اور کڑک میں کئی اسکولوں کی عمارتوں کو تباہ کیا ہے۔ اگرچہ حکومت اس صورتحال میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف سخت پالیسی اختیار کرنے کی بات تو کرتی ہے مگر حقائق اس کی تصدیق نہیں کرتے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے انتہا پسندوں کے خلاف سخت اقدامات کا عندیہ تو دیا ہے مگر جب تک تمام ریاستی ادارے انتہاپسندی کو جڑوں سے ختم کرنے پر یک جا نہیں ہونگے یہ عفریت قابو میں نہیں آئے گا۔ ریاست کی اعلیٰ سطح پر سوچ کی تبدیلی ضروری ہے۔ سوات میں ایک پر تشدد ہجوم کے ہاتھوں پنجاب سے آئے ہوئے سیاح کا بیہمانہ انداز میں قتل ایک بار پھر صورتحال کی سنگینی کا اظہار کر رہا ہے۔

کیسی عجیب بات ہے کہ مسلح گروہوں نے تھانے پر حملہ کر کے ایک مظلوم کو زبردستی باہر کھینچ نکالا اور زندہ جلا دیا۔ پولیس اس ہجوم کے خلاف کارروائی کرنے کی جرات نہیں کر پا رہی اور اب پولیس حکام یہ کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے ملزمان کی تلاش شروع کردی ہے۔ خلیل جبران کی لاش ایک گھنٹہ تک سڑک پر پڑی رہی اور لوگ لاش اٹھانے نہ آئے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سارے لوگ قاتلوں کو جانتے ہیں۔ دوسری طرف پشاور کی حکومت ان انتہا پسندوں کا مقابلہ نہیں کر پا رہی۔

بعض تجزیہ نگار جو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سرکاری اداروں میں بعض اہلکار بھی ان انتہا پسند گروہوں سے ہمدردی رکھتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ ریاستی پالیسی میں تضادات کی بناء پر ان گروہوں کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی نہیں ہو پارہی ہے جس کا نقصان پورے خطے کے عوام کو ہو رہا ہے۔ یہ خبریں بھی عام ہیں کہ چین کی مدد سے تعمیر ہونے والے داسو پاور پروجیکٹ کی تعمیر کرنے والی چینی ماہرین کی ٹیم پر حملہ میں انتہا پسند گروہ ملوث تھے۔ اس حملے کے بعد چین نے ان گروہوں کے خلاف سخت کارروائی پر زور دیا تھا۔ ریاست کو واضح کردینا چاہیے خلیل جبران کا قتل اتنا ہی سنگین ہے جتنا کسی افسر کا قتل۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔