با نی وکی لیکس کی 14 سال بعد امریکا سے ڈیل کے تحت رہائی، آسٹریلیا میں پرتپاک استقبال

ویب ڈیسک  جمعرات 27 جون 2024
جولیان اسانج کا کینبرا میں زبردست استقبال کیا گیا—فوٹو: رائٹرز

جولیان اسانج کا کینبرا میں زبردست استقبال کیا گیا—فوٹو: رائٹرز

کینبرا: وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج نے جاسوسی کے قانون کی خلاف ورزی کے الزام میں 14 سال قانونی جنگ لڑنے کے بعد امریکا سے ڈیل کے تحت رہائی حاصل کرلی اور آسٹریلیا پہنچ گئے جہاں ان کا غیرمعمولی استقبال کیا گیا۔

خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق جولیان اسانج رہائی کے بعد نجی طیارے کے ذیعے آسٹریلیا کے کینبرا ایئرپورٹ میں اترے جہاں میڈیا اور ان کے حامی موجود تھا اور ان کی اہلیہ سٹیلا بھی ان کے استقبال کے لیے حاضر تھیں، جنہیں بانی وکی لیکس نے بوسہ دیا اور خوشی کا اظہار کیا۔

امریکی قانون کی خلاف ورزی کے الزام میں طویل عرصے تک قانون شکنجے میں جکڑے رہنے والے جولیان اسانج نے اپنی ٹیم کے ہمراہ ٹرمینل بلڈنگ میں داخل ہونے سے قبل اپنے والد سے بھی ملاقات کی۔

جولیان اسانج نے رہائی کے بعد میڈیا سے بات نہیں کی اور نہ ہی کینبرا میں ہوٹل پر ہونے والی وکی لیکس کی پریس کانفرنس میں بھی موجود نہیں تھا جہاں ان کی اہلیہ سٹیلا نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ان کے شوہر کا اگلا قدم کیا ہوگا۔

 

07

انہوں نے کہا کہ جولیان اسانج کو آزادی کا عادی ہونے اور بحالی کے لیے وقت درکار ہے اور میں چاہتی ہوں کہ ان کو اس آزادی کے لیے ماحول ملنا چاہیے اور مجھے یقین ہے کہ میرے خاوند کو ایک دن معاف کردیا جائے گا۔

آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نے جولیان اسانج کی رہائی کے لیے کئی برس تک کوشش کی اور اب ان کی آزادی پر کہنا تھا کہ میری بانی وکی لیکس سے ان کا طیارہ لینڈ کرنے کے بعد بات ہوئی ہے۔

انتھونی البانیز نے کہا کہ میری ان سے بڑی اچھی گفتگو ہوئی اور وہ آسٹریلیا کی حکومت کی کوششوں کے معترف ہیں، حکومت آسٹریلیا کے شہریوں کے لیے کھڑی ہوتی ہے اور ہم نے وہی کیا۔

خیال رہے کہ جولیان اسانج کی آسٹریلیا آمد کے ساتھ ہی برطانیہ کی ہائی سیکیورٹی جیل اور لندن میں قائم ایکواڈور کے سفارت خانے میں 7 سال جلاوطنی میں گزارا گیا مشکل وقت ختم ہوگیا، ان پر جنسی زیادتی کا الزام تھا اور انہیں امریکی قوانین کی خلاف ورزی کے 18 جرائم کا سامنا تھا۔

جولیان اسانج پر یہ الزامات 2010 میں وکی لیکس کی جانب سے امریکا کی افغانستان اور عراق جنگ کے حوالے سے ہزاروں خفیہ دستاویزات جاری کیے جانے کے بعد عائد کیے گئے تھے اور یہ امریکا کی تاریخ میں خفیہ دستاویزات عام ہونے کا سب سے بڑا واقعہ تھا۔

امریکا کے ساتھ ڈیل کے تحت جولیان اسانج نے امریکی خطے سیپان میں تین گھنٹے کی سماعت کا سامنا کیا جہاں انہوں نے خفیہ قومی دفاعی دستاویزات حاصل کرنے کی کوشش اور نشر کرنے کے جرم کا اعتراف کیا لیکن کہا کہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت آزادی اظہار کو تحفظ حاصل ہے اور ان کی سرگرمیوں کو استثنیٰ ہے۔

جولیان اسانج نے عدالت کو بتایا کہ ایک صحافی کی حیثیت میں کام کرتے ہوئے میں نے اپنے ذرائع کی معلومات فراہم کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی اور ان معلومات کو شائع کرنے پر خفیہ دستاویز قرار دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے یقین تھا کہ پہلی ترمیم میں اس سرگرمی کو تحفظ حاصل ہے لیکن تسلیم کیا کہ جاسوسی کے قانون کی خلاف ورزی تھی۔

ادھر امریکی ڈسٹرٹ جج رامونا وی مینگلونا نے ان کے اعتراف جرم کو تسلیم کیا اور امریکی حکومت نے عندیہ دیا کہ جولیان اسانج کے ذاتی فعل پر کوئی کارروائی کی ضرورت نہیں ہے۔

امریکی جج نے 3 جولائی کو اپنی زندگی کی 53 ویں بہار مکمل کرنے والے اسانج کو سالگرہ کی مبارک باد دی اور انہیں برطانوی جیل میں قید گزارنے پر آزادی کا پروانہ تھما دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔