اردو کہاوتوں کا پس منظر ( دوسرا اور آخری حصہ)

رئیس فاطمہ  جمعـء 28 جون 2024
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

(5)۔ ’’دکھ سہیں بی فاختہ اور کوّے انڈے کھائیں‘‘

یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب محنت تو کوئی اور کرے لیکن اس کا فائدہ کوئی اور لے جائے، جیسا کہ آج کل ہوتا ہے، سیاسی جماعتوں کے بے چارے ورکرز ساری محنت کرتے ہیں، جلسے کرواتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، الیکشن کی مہم چلاتے ہیں لیکن آخر میں ان کے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ سیاست دان انھیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں۔

اس کہاوت کے پیچھے یہ کہانی ہے کہ فاختہ ایک بھولا بھالا اور معصوم پرندہ ہے، اس کے مقابلے میں کوا ایک چالاک اور مکار پرندہ ہے۔ کوے کی مادہ اپنے انڈے خود نہیں سیتی بلکہ موقع دیکھ کر فاختہ کے گھونسلے میں انڈے دے آتی ہے اور کوّی فاختہ کے انڈے کھا جاتی ہے۔ فاختہ ان انڈوں کو اپنے انڈے سمجھ کر سیتی رہتی ہے، لیکن جب انڈوں میں سے بچے نکلتے ہیں تو اسے پتا چلتا ہے کہ یہ تو اس کے نہیں بلکہ کوے کے بچے ہیں۔

(6)۔ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔

یعنی ناچنا تو آتا نہیں صحن میں عیب نکالے۔ کسی کام میں دخل نہ رکھنا لیکن دعوے بڑے بڑے کرنا۔ یعنی شیخی خورے لوگ جو خود کچھ نہیں کرسکتے اور دوسروں میں عیب نکالیں، بہانے باز۔

کسی شہر میں ایک رقاصہ رہتی تھی جس نے خود کو بہت ماہر رقاصہ مشہور کر رکھا تھا، جب لوگ کسی محفل میں اس سے رقص کرنے کی فرمائش کرتے تو وہ اتنا زیادہ معاوضہ طلب کرتی کہ اگلوں کے ہوش اڑ جاتے۔ اس طرح اس کی شہرت اور بھی دور دور تک پھیل گئی۔ ایک بار ایک زمیندار نے اپنے بیٹے کی شادی پر اسے رقص کی دعوت دی۔

اس نے حسب عادت منہ پھاڑ کے بھاری معاوضہ طلب کیا، زمیندار کے لوگوں نے فوراً ہی منظور کر لیا، اب رقاصہ کے پاس کوئی جواز نہیں تھا منع کرنے کا، وہ کارندوں کے ساتھ چل تو پڑی، لیکن راستے بھر سوچتے رہی کہ کیسے اپنی عزت بچاؤں، مجھے تو ناچنا آتا ہی نہیں۔ بہرحال وہ زمیندار کے گھر پہنچ گئی، جہاں اس کی بڑی آؤ بھگت ہوئی کیونکہ وہ مشہور رقاصہ تھی۔ جب رات ہوئی تو حاضرین کے سامنے وہ آئی، دو چار ہاتھ ہلائے، گھنگھرو بجائے، لوگ سمجھے کہ ابھی تیاری کر رہی ہے۔ طبلے والا بھی پریشان کہ کیا تھاپ دے۔ اچانک رقاصہ کی نظر صحن پر پڑی جو ایک طرف سے ٹیڑھا تھا، یعنی مکمل چوکھونٹا تھا، وہ رک گئی اور بولی ’’ میں رقص نہیں کرسکتی کیونکہ تمہارا آنگن ٹیڑھا ہے۔‘‘ تبھی کسی نے کہا ’’ بہت خوب۔۔۔۔ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔‘‘

(7)۔ ’’طویلے کی بلا بندر کے سر۔‘‘

یہ کہاوت ایسے موقعوں پر بولی جاتی ہے جب ایک کی آفت دوسرے کے سر پڑ جائے۔ یعنی قصورکسی کا ہو اور سزا کسی اور کو ملے یا ناگہانی مصیبت کسی اور کے سر پڑ جائے۔ کہتے ہیں ہر ایک بلا بے زبان کے سر جاتی ہے۔ پہلے زمانے میں سرداروں، امیروں اور بادشاہوں کے طویلے ہوتے تھے۔ طویلہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں جانور یا گھوڑے باندھے جائیں۔ گویا گھوڑوں کے اصطبل کو طویلہ کہتے ہیں۔

آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کو گھوڑے پالنے کا شوق ہے اور ان کے گھوڑے دودھ، بادام اور شہد کھاتے ہیں۔ طویلے کے مالکان ہر طویلے میں ایک بندر ضرور باندھ کر رکھتے تھے، ان کا عقیدہ تھا کہ اگر طویلے پر کوئی مصیبت آئی تو وہ بندر اپنی جان پہ لے لے گا۔ اور ایسا ہوتا بھی تھا، تب ہی سے یہ کہاوت وجود میں آئی۔ آج بھی بہت سے لوگ گھروں میں لعل پالتے ہیں۔ یعنی ننھی منی خوبصورت چڑیاں، ان کا عقیدہ ہے کہ اگر گھر میں کسی پر کوئی مصیبت آئی تو لعل اپنی جان پر لے لے گا، اسی لیے جب پنجرے میں کوئی چڑیا مر جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ کوئی مصیبت آئی تھی جسے لعل نے اپنی جان پر لے لیا۔

(8)۔ جتنی چادر دیکھیے اتنے پیر پھیلائیے۔

یہ کہاوت ایسے موقعوں پر بولی جاتی ہے جب کوئی شخص اپنی حیثیت اور بساط سے بڑھ کر بغیر سوچے کوئی کام کرے۔ یعنی کسی کو بھی اپنی بساط سے بڑھ کر کوئی کام نہیں کرنا چاہیے۔ اس کہاوت کا پس منظر یہ ہے کہ ایک بار اکبر بادشاہ نے بیربل کو حکم دیا کہ غریبوں کے لیے مفت چادریں مہیا کی جائیں، ایسی چادریں جنھیں اوڑھ کر سویا جاسکے۔ ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا کہ چادریں تیار ہو جائیں تو اکبر کو دکھائی جائیں۔ لہٰذا جب چادریں تیار ہوگئیں تو بیربل نے انھیں اکبر کے سامنے لا رکھا، اکبر نے لیٹ کر ایک چادر کو اوڑھا تو اس کے پیر باہر نکل آئے، اکبر نے کہا ’’ یہ چادریں تو چھوٹی ہیں، اس میں پاؤں باہر نکل رہے ہیں۔‘‘ بیربل جو اپنی حاضر جوابی کے لیے مشہور تھا ترنت بولا ’’ حضور! چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیے۔‘‘ جب سے یہ کہاوت مشہور ہوگئی۔

(9)۔ ’’گربہ کشتن روز اول۔‘‘

دو نہایت ہم پیالہ و ہم نوالہ دوستوں نے عہد کیا کہ وہ اپنی دوستی قائم رکھنے کے لیے ایک ہی گھرانے میں شادی کریں گے۔ چنانچہ مشاطاؤں کی تلاش کے بعد ایک ہی گھرانے میں دو کنواری لڑکیوں کا پتا چلا، لیکن یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ بہت تیزطرار ہیں، بہرحال شادی ہوگئی، ایک دوست نے اپنے پلنگ کے ساتھ ایک بلی باندھ دی، رات کو جب وہ حجلۂ عروسی میں داخل ہوا تو اسے بلی کے میاؤں میاؤں کرنے کی آواز آئی، اس نے دھاڑ کر کہا ’’چپ ہوتی ہے یا نکالوں تلوار‘‘ بلی اور زیادہ میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ دولہا نے قریب رکھی ہوئی تلوار اٹھائی اور بلی کی گردن مار دی، بیوی سہم گئی اور میاں کی فرماں بردار بن کر رہنے لگی۔ اب سنیے دوسرے دوست کی، اس کی بیوی بہت تیز طرار اور زبان دراز تھی۔

ایک دن اس نے اپنے دوست سے پوچھا کہ تمہاری بیوی اتنی فرماں بردار کیسے ہے، کون سا منتر پڑھ کر تم نے اس پر پھونکا ہے۔ تب دوست نے سب کچھ بتا دیا۔ اگلے روز وہ دوست بازار سے ایک بلی لایا، جب دسترخوان بچھا تو بلی میاؤں میاؤں کرنے لگی، اس نے جھٹ تلوار اٹھائی اور بلی کا سر قلم کر دیا، لیکن بیوی پہ کوئی اثر نہ ہوا، دو تین دن بعد جب دونوں دوست ملے تو دوسرے دوست نے پہلے سے کہا کہ اس نے بھی بلی کو مار دیا تھا، لیکن بیوی کے مزاج میں کوئی فرق نہ آیا۔ تب پہلے دوست نے کہا ’’ یار۔۔۔۔ گربہ کشتن روز اول‘‘ یعنی بلی کو پہلے ہی دن مار دینا چاہیے۔ اس کہاوت کا مطلب ہے کہ رعب پہلے ہی دن پڑتا ہے، یعنی موذی کو سزا دینے میں تساہل نہیں برتنا چاہیے۔

(10)۔ ’’پڑھیں فارسی بیچیں تیل۔‘‘

یہ قصہ جہانگیر بادشاہ کے زمانے کا ہے، جب شرفا کی زبان فارسی تھی۔ ایک نوجوان جس نے فارسی ادب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رکھی تھی، اس کو تلاش کے باوجود کہیں نوکری نہ ملی تو اس نے گزر اوقات کے لیے تیل خریدا، ترازو لیا اور گلیوں گلیوں تیل بیچنے لگا اور یہ سوچ کر افسوس کرنے لگا کہ بجائے فارسی ادب پڑھنے کے وہ کوئی ہنر سیکھ لیتا کیونکہ ہنرمند کبھی بھوکا نہیں مرتا، لیکن اب کیا کیا جاسکتا تھا۔ ایک دن وہ تیل بیچنے کی آواز لگا رہا تھا، اس کا گزر شاہی محل کی طرف سے ہوا، ملکہ نور جہاں کو اپنے لیے تیل کی ضرورت تھی، اس نے خادمہ سے کہا کہ وہ تیل بیچنے والے کو بلائے اور اسے اطلاع دے۔ خادمہ نے ملازموں سے کہا انھوں نے تیل فروش نوجوان کو محل میں بھجوا دیا، نور جہاں نے تیل دکھانے کی فرمائش کی اسے اپنے سنگھار اور جلد کو تر و تازہ رکھنے کے لیے کھوپرے کا تیل درکار تھا۔

اس نے نوجوان سے گفتگو کی تو وہ ہر بات کا جواب فارسی میں دیتا، ملکہ اس کی فارسی دانی سن کر دنگ رہ گئی اور ماجرا دریافت کیا کہ فارسی زبان کی اتنی سمجھ اور تیل بیچ رہے ہو۔ اس نے ساری کتھا سنا دی، جسے سن کر نور جہاں بے اختیار بولی۔ ’’ پڑھیں فارسی بیچیں تیل، دیکھو تو قدرت کے کھیل۔‘‘ اس کے بعد اس نے نوجوان کو محل میں عرضی نویس کی نوکری دے دی۔ اس وقت سے یہ کہاوت اس موقع پر بولی جاتی ہے جب کوئی عالم اور قابل آدمی اپنی حیثیت سے کم کام کرے۔ جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے کہ قابل نوجوان اعلیٰ ترین ڈگری کے باوجود چھوٹی موٹی نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔ خاص کر ہمارے ملک کے نوجوان اس معاملے میں زیادہ بدقسمت ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔